Friday, 17 August 2012


اسلام کو اُنگلی سے لگا کر بھیک مانگنے والے مالکانِ اسلام کے نام
"اسلام ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے اصلی وارث ہیں "بات یہاں تک ہوتی تو خیر تھی اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسلام بھی ہمارا اور اس کے قوانیں بھی ہمارے اور ہم جیسے چاہیں جہاں چاہیں جو چاہیں کر دیں اور اسلام کا جو چاہیں استعمال کریں۔ آپ سب نے "دولے  شاہ کے چوہے" تو دیکھیں ہوں گے  چھوٹے سروں والے اور ان کے ساتھ ایک ہٹا کٹا صحت مند آدمی بھی دیکھا ہوگا جو ان کو گلی گلی ، گھر گھر، دکان دکان ان کو گھماتا ہے اور ان سے بھیک منگواتا ہے اور کہتا ہے یہ مجذوب ہیں  ان کو خالی ہاتھ نہ بھیجو ورنہ یہ بد دعا کر دیں گے اور تم برباد ہو جاوَ گے کاروبار چلا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اور ہم چالاک دکاندار، ہشیار گھر والے اور پڑھے لکھے دانشور ان کی بددعاوَں سے ڈر کر  ان کی خدمت کرتے ہیں  اور ان کی جھوٹی دعاوَں کے عوض اپنی جیب خالی کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی آخرت سنوار لی اور ادھر محلے کا بچہ  سکول جانے کی بجائے کاغذ چن رہا ہے اور ماں لوگوں کے گھروں میں صفائیاں کر رہی ہے اور ہم اپنی آخرت سنوار کے آرام سے سو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب زکوۃ، صدقہ، فطر ، قربانی کی کھالوں کا موسم آتا ہے تو ہمارے ہٹے کٹے صحت مند "مالکانِ اسلام" ["اسلام کےٹھیکدار" لفظ ذرا غیر مہذب تھا اس لیے نہیں لکھا] "اسلام" کواپنی انگلی کے ساتھ لگا کے گلی گلی، کوچوں کوچوں نکلے پڑتے ہیں اور "اسلام "کو آگے کر کے کہتے ہیں ، اے صاحب مال ، اے فطرانہ دینے والے، اے قربانی دینے والےیہ دیکھ"اسلام" بیچارہ کتنا نحیف ہو گیا ہے کتنا کمزور اور لاچار ہے  اس سے چلا بھی نہیں جاتا  ہم نے اس کو خاص آپ کے لیے لاچار بنا یا ہے تاکہ  آپ اس کی خدمت کر کے اپنی دنیا و آخرت  سنوار سکیں اگر آج آپ نے اس کو خالی ہاتھ بھیج دیا تو قیامت والے دن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ  دکھاوَ گے؟ اور یوں ہم اللہ  اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے لیے سب کچھ اس کمزور اور لاچار اسلام کی ہتھیلی پہ رکھ کہ جنت کے خواب دیکھنے کے لیے سو جاتے ہیں اور اردگرد کے غریبوں، یتیموں، مسکینوں، بیواوَں، اپاہجوں کی سسکیاں اور چیخیں ہمیں سنائی ہی نہیں دیتی اور ہماری آنکھوں کے سامنے نور ہی نور بکھر جاتا ہے اور اس نور کی شدت سے نہ ہمیں ننھے ہاتھ مزدوری کرتے نظر آتے ہیں  نہ  گند کے ڈھیر سے کچرہ چننے والے اور اُدھر ہی سے کھانا اٹھا اٹھا کر کھانے والے نظر آتے ہیں اورنہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والی ماں کے پھیلے ہوئے ہاتھ نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ باپ نظر آتا ہے جو بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہے اور  نہ ہی اس کی جوان بیٹی جو دوائی کےلیے پیسے اکھٹے کرتی ہے[وہ یہ پیسے کیسے اکھٹے کرتی ہے یہ ایک الگ سوال ہے]۔ اگر نظر آتا ہے تو وہ نورانی اور صحت مند چہرہ جو "لاچار و کمزوراسلام " کو اپنی اُنگلی سے لگا کر لایا تھا اور اور رو رو کر اس کے لیے پورے پاکستان سے ساری زکوٰۃ، صدقات، خیرات، فطرانے اور کھالیں اکھٹی کر کے لے گیا۔
اب رمضان کا یہ مقدس مہینہ شروع ہےاور  یہ زکوٰۃ اور فطر کا مہینہ ہے اور  صاحبِ مال زکوٰۃ اور فطرانے دیں گے اس کے لیے ہمارے صحت مند "مالکانِ اسلام" نے کمر کس لی ہے اور لاچار و کمزور "اسلام" کو انگلی سے لگا لیا ہے اور نکل پڑے ہیں۔ کچھ جو خود صاحبِ حیثیت [مالکانِ اسلام]ہیں اور بڑی بڑی تنطیموں کے روح رواں ہیں اور سابقہ تجربہ بھی رکھتے ہیں بلکہ اپنا ذاتی ٹی وی چینل بھی ہے جس پہ وہ سارا سارا سال آنسوں بہا بہا کر بتاتے ہیں کہ " ہمارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تھے اور یتیموں کا خیال رکھتے تھے وہ یتیموں کے وارث تھے، غریبوں کے والی تھے اور فرماتے تھے کہ اپنے مال میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی حصہ رکھو، زکوٰۃ دو، وہ جو فرماتے تھے کہ بھوکے کو کھانا کھلاوَ" وغیرہ وغیرہ۔ آج جب یتیموں کو زکوٰۃ اور فطر دینے کی باری آئی ہے تو انہوں نے جگہ جگہ بینر اور پوسٹر لگا دیے ہیں جن پر  بینک اکاوَنٹ نمبر  درج ہیں اور ساتھ جلی حروف میں لکھا ہے "زکوٰۃ، صدقات اور فطرانے کی رقم ہماری غیر سیاسی اسلامی تنظیم کو دیں"  [ایک دفعہ سبحان اللہ کہہ دیجئے]۔ جبکہ ان تنظیموں میں بڑے بڑے تاجر بھی ہیں ڈاکٹر اور انجینیئر بھی ہیں لیکں ان کی جیبوں پہ تو جیسے سانپ بیٹھے ہیں۔  کہاں گئیں وہ سال بھر کی آہ و زاریاں ؟کہا ں گئیں وہ یتیموں اور غریبوں کے لیے کان کے پردے پھاڑنے والی  تقریریں؟ اپنے ہجروں سے باہر نکل کر دیکھو، اپنے اوپر فوکس ہونے والے کیمرے کو فُٹ پاتھوں پہ سوئے ہوئے بے گھر لوگوں پہ بھی لگاوَ ہسپتالوں کی طرف بھی ان کی کوریج کرو اور لنگر کی لائن لگی اسلامی بہنوں پہ بھی فوکس کرو۔ پھر تصور کرواس یتیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا جو پیٹ پہ پتھر باندھے امت اور اسلام کے لیے کھڑے ہیں اور پھر اپنے کمرہ نما پیٹ کو بھی دیکھو۔ ان کیمروں کو کہو کہ یہ فوکس کریں تمہاری لٹکی ہوئی توندوں کو اور تمہارے گھروں کو بھی اور بعد میں تمہارے نورانی چہروں کو۔ لیکن تم ایسا نہیں کرو گے کیونکہ تمہاری جاہ و جلال ختم ہو جائے گی یتیموں کا کیا ہے وہ تو تمہارا پھینکا ہوا کھانا کھا کےفُٹ پاتھ پے سو جائیں گے۔
اب  میری مسلمان بھائیوں سے اپیل ہے کہ وہ خدارا ان ڈرامے بازوں کے ہتھے نہ چڑھیں اور اپنی زکوٰۃ ، صدقات، خیرات اور فطر وغیرہ کی رقوم سب سے پہلے اپنے رشتہ دار اگر وہ نہیں تو پڑوسی، پڑوسی نہیں تو محلے دار یا گاوَں کے کسی حاجت مند اگر یہ بھی نہ ہو تو شہر میں کسی حاجت مند اور اگر آپ کو کوضرورت مند نظر نہیں آ رہا تو آپ سیدھا ہسپتال چلے جائیں  وہاں آپ کو بہت سے ضرورت مند مل جائیں گے۔ یہ یتموں اور لاچاروں کا مال ہے اور صحیح حق دار تک پہنچانا آپ کا فرض ہے۔ یتیموں کا مال ان دغہ بازوں سے بچائیں۔   بہت غربت ہے وطنِ عزیز میں بہت لاچارگی ہے خدارا ان کا خیال رکھیں اور اپنی عید کی خوشیوں میں ان کو بھی شریک کریں، ان ننھے پھولوں کو بھی نئے کپڑے پہننے کی اجازت دیں جن کی شرٹ کے بٹن نہیں جو  میز پر کپڑا مار کہتے ہیں باوَ جی کیا کھاوَ گے جو معصوم ہاتھوں میں پالش برش پکڑ کر کہتے ہیں باوَ جی "جُتی پالش کرا لو"۔
معین وٹوwww.facebook.com/moeen.wattoo & www.moeenwattoo.blogspot.com                     

Monday, 13 August 2012

Tuesday, 7 August 2012

ایس ایم ایس
                                    معاشرے میں حد سے زیادہ موبائل پیغامات اور ان کی وجہ سے طالبعلموں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے والدین اور اساتذہ سے اپیل۔

اٹھارہ کروڑ بند مشینیں
پاکستان کے اٹھارہ کروڑ بند دماغوں کو جگانے کے لیے ایک کوشش، ایک مشورہ

Thursday, 2 August 2012

موجودہ ٹاک شوز کے بارے میں میرا یہ کالم امید ہے آپ کو پسند آئے گا

Facebook Followers