Saturday, 26 July 2014

Edward Snowden Exposes ISIS Caliph Abubakar Al-Baghdadi.

داعش صدر ابوبکر البغدادی امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے۔  ایڈورڈ سنوڈن کا انکشاف
ماسکو: امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن نے انکشاف کیا ہے کہ دولت اسلامی شام و عراق کے سربراہ ابو بکر البغدادی امریکا اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے اور اسے اسرائیل میں تربیت فراہم کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایڈ ورڈ اسنوڈن کا کہنا تھا کہ سی آئی اے اور برطانیہ کے انٹیلی جنس ادارے نے بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر ایک دہشت گرد تنظیم بنائی جو کہ دنیا بھر کے شدت پسندوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے اور اس پالیسی کو ’’ دی ہارنیٹز نیسٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسنوڈن کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کا مقصد تمام دنیا کے لئے بڑے خطرات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا تھا تاکہ انھیں ایک جگہ سے کنٹرول کیا جا سکے اور عرب ممالک میں انتشار پھیلایا جا سکے۔
سابق سی آئی اے اہلکار نے کہا کہ داعش سربراہ ابو بکر البغدادی کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے سے انتہائی سخت فوجی تربیت دلوائی گئی۔ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ البغدادی کو بولنے میں مہارت کی تربیت بھی دی گئی تاکہ وہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کو اپنے بیان سے متاثر کر سکے۔ اسنوڈن نے کہا کہ تینوں ممالک کے نزدیک صیہونی ریاست کی حفاظت کے لئے اسرائیل کی سرحدوں کے قریب ایک دہشت گرد تنظیم ضروری ہے۔
واضح رہے کہ داعش نے ابو بکر البغدادی کو رواں ماہ ہی مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیتے ہوئے امت مسلمہ کو ان کی اطاعت کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ داعش عراق اور شام میں حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے اور عراق میں بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔

Tuesday, 22 July 2014

Nawaz Sharif Govt tactics against Dr. Qadri

مبینہ ٹیکس چوری؛ ایف بی آر ڈاکٹر طاہرالقادری کو پھنسانے کے درپے


لاہور: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری، دیگر عہدیداروں اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کو770ملین روپے کی مبینہ ٹیکس چوری کے کیس میں پھنسانے کی تمام دستاویزی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب دستاویزات کے مطابق ایف بی آر نے ان تمام افراد کو جان بوجھ کرپچھلی تاریخ سے نوٹس جاری کیے ہیں تاکہ انھیں جواب دینے کاکم سے کم وقت مل سکے اور ان کیخلاف اثاثے چھپانے اور770ملین روپے کی ٹیکس چوری کا مقدمہ قائم کیا جاسکے۔ ایف بی آر نے پہلے نوٹس 8جولائی کو جاری کیے اور تمام مسئول علیہان کو11جولائی2014 کو موصول کرائے جبکہ جواب داخل کرنے کی آخری تاریخ 15جولائی 2014 مقرر کی گئی ہے۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دوسرا نوٹس30جون 2014 کو جاری کیا گیا اور یہ نوٹس18 جولائی کو پہنچائے گئے جبکہ جواب داخل کرنے کی آخری تاریخ15 جولائی 2014 رکھی گئی۔ ایف بی آر نے طاہرالقادری اور دیگر متعلقہ افراد کو نوٹس 16جولائی کو جاری کیے جو18جولائی کو موصول ہوئے، ان نوٹسوں کا جواب داخل کرنے کی آخری تاریخ21جولائی (سوموار) تھی۔ سرکاری کاغذات کے معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس تمام کارروائی کا مقصد طاہرالقادری اور ان کے ساتھیوں کو جواب داخل کرنے کا مناسب وقت دینے کی بجائے کیس میں پھنسانا ہے۔
8جولائی کو جاری کیے گئے پہلے نوٹس میں ایف بی آر نے مسئول علیہان کو ہدایت کی کہ وہ 2009سے 30جون 2013کے درمیان اپنے اثاثہ جات، شریک حیات اور بچوں کی ملکیت اور ان کے اخراجات کی تفصیل جمع کرائیں۔ 30جون2014کو تیارکیے گئے نوٹس 18جولائی 2014 کو پہنچائے گئے حالانکہ جواب داخل کرانے کی آخری تاریخ 15جولائی تھی۔ ان نوٹسوں میں بروقت تفصیل فراہم نہ کرنے پر قانونی کارروائی کیلیے متعلقہ دفعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

Pakistan Progress in Trade, Education, Law&Order, Free Journalism and......



پاکستان -کیا  کھویا کیا پایا
نیویارک / کینبرا: پاکستان عالمی سطح پر کاروباراورتجارت میں بھارت پربازی لے گیا، پاکستان 53.9 اسکور کے ساتھ 107 ویں نمبرپررہا، بھارت کو47 اسکور دے کر 128ویں نمبرپر رکھا گیا تاہم تعلیم، قانون، آزادی صحافت اور سماجی شعبے سمیت دیگرکئی شعبوں میں پاکستان نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیا کے بھوٹان جیسے ممالک سے بھی پیچھے ہے۔
تعلیم کے شعبے میں 142 ممالک میں پاکستان کا نمبر 141 واں ہے،پاکستان کو تعلیم جیسے اہم شعبے میں صرف 10.7 نمبر دیے گئے،چین جو اس فہرست میں اول نمبرپر ہے، اس کا اسکور 71.3 رہا ۔کورنل یونیورسٹی آسٹریلیااوراقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈانٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی جانب سے کیے جانے والے مشترکہ گلوبل انوویشن انڈیکس(جی آئی آئی) کے ساتویں سالانہ سروے کے مطابق پاکستان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جنوبی مشرقی ایشیاکے نیپال،بنگلہ دیش اوربھوٹان جیسے چھوٹے ملکوں سے بھی کہیں پیچھے ہے۔
گلوبل انوویشن انڈیکس کی رپورٹ دنیا کی تقریباً150معیشتوں کی ایجاد،اختراع اورترقی کی صلاحیتوں کے بارے میں ہوتی ہے اورگزشتہ7برس میں اس سروے یا رپورٹ نے اپنی افادیت کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کر لی ہے۔

Hyperconnectivity, We, and Solution

ٹھیکدار
جاوید چودھری
یہ پچھلے سال کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس اٹلی کا خوبصورت‘ قابل دید اور رومانوی شہر ہے‘ یہ شہر صدیوں سے پانی میں ڈوبا ہوا ہے‘ نہریں شہر کی گلیاں ہیں اور موٹر بوٹس اور گنڈولے عوامی سواری۔ مارکوپولو اسی شہر کا باسی تھا‘ مارکو پولو کا گھر آج بھی یہاں موجود ہے‘ دنیا کی قدیم ترین کمپنیاں وینس سے تعلق رکھتی ہیں‘ کرسٹل کی اشیاء بنانے والی ایک فرم نبی اکرمؐ  کی ولادت سے دو سال قبل بنی‘ یہ آج تک قائم ہے‘ دوسری فرم اس وقت بنی جب حضرت عیسیٰ  ؑ نے تبلیغ کا کام شروع کیا‘ یہ فرم بھی آج تک سلامت ہے ‘ وینس شہر میں دنیا کا قدیم ترین کیسینو بھی ہے‘ یہ حیران کن شہر ہے‘ مجھے اس شہر میں چار بار جانے کا اتفاق ہوا۔
میں پچھلے سال دو دوستوں کے ساتھ وینس گیا‘ ہم شام کے وقت ایک ریستوران میں چلے گئے‘ہم نے وہاں جاتے ہی موبائل آن کیے اور انٹر نیٹ کے سگنل تلاش کرنے لگے‘ فیس بک‘ ای میلز اور وائبر کی وجہ سے ’’وائی فائی‘‘ ہماری زندگی کا لازم جزو بن چکا ہے‘ ہم لوگ جہاں بیٹھتے ہیں‘ ہم سب سے پہلے ’’ وائی فائی‘‘ تلاش کرتے ہیں اور وائی فائی ملتے ہی ہم موبائل میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر ہمیں دائیں بائیں کا ہوش نہیں رہتا‘ ہم نے اس روز بھی یہی کیا‘ ہم پانچ سات منٹ تک موبائل فون سے گتھم گتھا رہے لیکن وائی فائی تو دور وہاں ہمارے موبائل فونز کے سگنل بھی نہیں آ رہے تھے‘ ہم لوگوں نے ویٹریس کو اشارہ کیا‘ اسے بلایا اور سگنل کی شکایت کی۔

اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’سر ہمارے ریستوران میں جیمرز لگے ہیں‘ یہاں موبائل فونز کام نہیں کرتے‘‘ ہم نے وجہ پوچھی‘ اس نے بتایا ’’ یہ وینس کا سگنل فری ریستوران ہے‘ ہم چاہتے ہیں ‘ہمارے مہمان ایک دوسرے سے گفتگو کریں اور یہ وائی فائی کے بجائے کھانے کو انجوائے کریں‘‘ ہم اس عجیب و غریب منطق پر حیران ہوئے اور ہم نے اس سے پوچھا ’’ یہ آئیڈیا کس کا تھا‘‘ اس نے جواب دیا ’’ یہ ہمارے مالک کا آئیڈیا تھا‘‘ ہم نے کھانے کا آرڈر دیا اور ریستوران کے مالک سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ ویٹریس نے ملاقات کا بندوبست کر دیا۔
ریستوران کا مالک ایک نوجوان اطالوی تھا‘ میں نے نوجوان سے اس عجیب و غریب آئیڈیا کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’جناب ٹیکنالوجی نے انسان کو دورکر دیا ہے‘ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی‘ ہم ایک دوسرے کی بات سننے کے بجائے وائبر‘ ای میلز اور فیس بک سے گفتگو کرتے رہتے ہیں‘ ہم ریستوران میں مہنگا کھانا آرڈر کریں گے مگر کھانا انجوائے کرنے کے بجائے سوشل میڈیا سے سوشل ہوتے رہیں گے۔
ہماری اس عادت نے ہمارا ٹیسٹ بھی برباد کر دیا ہے اور ہماری محفلوں کو بھی چنانچہ میں نے اپنے ریستوران میں فون کے سگنل بند کرا دیے ہیں اور ہم گاہکوں کو ’’وائی فائی‘‘ کی سہولت بھی نہیں دیتے‘ ہم اپنے مہمانوں سے درخواست کرتے ہیں‘ آپ ہمارے ریستوران میں بیٹھ کر سیکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے گفتگو کے بجائے سامنے بیٹھے شخص سے بات چیت کریں اور ہمارے کھانے کو انجوائے کریں‘‘۔ ہم اطالوی نوجوان کے آئیڈیئے کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
ہم ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں‘ ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری رفتار میں اضافہ کر دیا وہاں اس نے ہمیں اندر سے ویران بھی کر دیا ہے‘ ہم بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہو چکے ہیں‘ زندگی ہمارے لیے فشار خون‘ دبائو‘ ٹینشن اور اینگزائٹی کے سوا کچھ نہیں رہی‘ ہم بیمار ہو چکے ہیں مگر ٹیکنالوجی ہماری ٹینشن اور فرسٹریشن کی واحد وجہ نہیں‘ ہمارے معاشی دبائو‘ سماجی افراتفری‘ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ‘ دوست احباب کی منافقت‘ دہشت گردی‘ لوڈ شیڈنگ‘ لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال اور انصاف کی کمی جیسے ایشوز بھی معاشرے میں فرسٹریشن اور ٹینشن پیدا کر ر ہے ہیں۔
یہ تمام عناصر مل کر ہماری خوشی کو نگل گئے ہیں اور ہم پاگل پن کی ابتدائی اسٹیج پر آ گئے ہیں‘ معاشرے میں جب لوگ صرف سنی سنائی باتوں اور شک کی بنیاد پر بڑے بڑے فیصلے کرنے لگیں‘ لوگ جب ذاتی خیال کو فلسفے کی شکل دینے لگیں اور لوگ جب اپنے فرقے کو پورا مذہب سمجھنے لگیں تو آپ جان لیں معاشرہ پاگل پن کی حدود میں داخل ہو چکا ہے‘ لوگ اب لوگوں کو کاٹ کر کھانا شروع کر دیں گے اور ہم آج کل اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی اس پاگل پن میں مزید اضافہ کر رہی ہے‘ میں اکثر دیکھتا ہوں‘ تین چار لوگ گھنٹہ بھر ایک میز پر بیٹھے رہتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے گفتگو کے بجائے موبائل پر مصروف رہتے ہیں‘ گھروں میں بھی افراد خانہ آپس میں گپ شپ کے بجائے موبائل‘ ای میل اور ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے رہتے ہیں‘ یہ رویہ معاشرے کو قبرستان بناتا جا رہا ہے ‘ ہم نے اگر اس پر توجہ نہ دی‘ ہم نے اگر معاشرے کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی تو معاشرتی پاگل پن اور ٹیکنالوجی کا غیر ضروری استعمال ہمیں تباہ کر دے گا لیکن اب سوال یہ ہے‘ کیا ہم اس پاگل پن سے نکل سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے ہاں ہم بہت آسانی سے صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں۔

اب دوسرا سوال یہ ہے‘ ہم اس صورتحال سے کیسے نکل سکتے ہیں‘یہ جواب بھی بہت سادہ ہے‘ ہمیں اس کے لیے ترقی یافتہ قوموں کا طریقہ استعمال کرنا ہو گا‘ یہ طریقہ آسان بھی ہے اور مجرب بھی اور جاپان سے لے کر امریکا تک دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا‘ ہم اس طریقہ کار کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ملک میں رائج کر سکتے ہیں۔
آپ تھوڑا ساماضی میں جا کر دیکھئے‘ آج سے سو سال پہلے یورپ بھی اسی صورتحال کا شکار تھا جس سے آج کل ہم گزر رہے ہیں‘ یہ لوگ معاشرتی گھٹن کی وجہ سے دو بڑی جنگوں تک چلے گئے اور ان جنگوں میں دس کروڑ لوگ مارے گئے مگر ان دو جنگوں کے بعد یورپ نے وہ کام شروع کیا میں جس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ یورپ کے سماجی ماہرین نے اندازہ لگایا چھٹیاں اور سیاحت دو ایسی سرگرمیاں ہیں جو انسان کے تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کر دیتی ہیں۔
ہم اگر لوگوں کو چھٹیاں گزارنے کا موقع دیں تو اس سے معاشرے میں امن ہو جائے گا چنانچہ یورپ نے ہفتے میں اڑھائی چھٹی کر دی‘ یہ لوگ جمعہ کی سہ پہر کام سے فارغ ہوتے ہیں اور سوموار کے دن دوبارہ کام پر آتے ہیں‘ یورپ میں جولائی کے مہینے میں عوام ایک مہینہ چھٹیاں بھی کرتے ہیں‘ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور وہ یورپ جو 1945ء تک ایک دوسرے کا جانی دشمن تھا اس میں امن قائم ہو گیا‘ یورپ میں لوگ جمعہ اور ہفتہ کی شام ’’ویک اینڈ‘‘ مناتے ہیں‘ یہ کلب جاتے ہیں‘ ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہیں اور اسپورٹس کرتے ہیں۔
یہ اتوار کے دن لیٹ جاگتے ہیں‘ گھر کے کام کرتے ہیں‘ کپڑے دھوتے ہیں‘ گھروں کی صفائی کرتے ہیں‘ سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جاتے ہیں اور گھروں کے لان اور گملے صاف کرتے ہیں‘ یہ ہر سال جولائی کے مہینے میں پورے خاندان کے ساتھ چھٹیاںگزارتے ہیں‘ یہ جولائی شروع ہوتے ہی دور دراز کے سفروں کے لیے نکل جاتے ہیں‘ یہ عموماً پہاڑوں میں چلے جاتے ہیں‘ گرم ساحلوں پر ڈیرے ڈال لیتے ہیں یا پھر تاریخی شہروں اور ملکوں کا رخ کرتے ہیں‘ یہ پورا مہینہ موبائل فون استعمال نہیں کرتے‘ یہ ای میل کا جواب بھی نہیں دیتے‘ چھٹیوں کا پورا مہینہ ان کا ذاتی مہینہ ہوتا ہے۔
یہ اس مہینے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور یکم اگست کو پورے جذبے اور توانائی کے ساتھ دوبارہ میدان میں اتر آتے ہیں‘ان چھٹیوں کے دو فائدے ہوتے ہیں‘لوگ بھی فریش ہو جاتے ہیں اور نئی معاشی سرگرمیاں بھی جنم لیتی ہیں‘ یورپ میں جولائی کے مہینے میں 15 کروڑ لوگ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں‘ قصبوں اور شہروں سے نکلتے ہیں‘یہ عارضی نقل مکانی 200 ارب ڈالر کی نئی معاشی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہے‘ یہ جوتوں سے لے کر ہوا بازی کی صنعت تک پورے کاروبار کو نئی زندگی بخشتی ہے۔
عوام کی ان چھٹیوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے‘ یورپ کے پندرہ ممالک میں وہ شخص‘ ادارے یا کمپنی کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی شخص کی چھٹیاں خراب کرنے کی مرتکب ہوتی ہے‘ ناروے میں اگر کوئی ملازم یہ شکایت کر دے‘ میرے فلاں باس کی وجہ سے میری چھٹیاں خراب ہو گئیں تو عدالت باس کو جیل بھجوا دیتی ہے‘ چھٹیوں کے دوران موبائل بند ہو جاتے ہیں اور یہ کھلے بھی ہوں تو بھی لوگ دوسروں کے موبائل پر فون نہیں کرتے‘ رابطہ اگر ناگزیر ہو تو یہ زیادہ سے زیادہ ایس ایم ایس کر دیتے ہیں۔
ہم بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ ہم ایک مہینے کی چھٹی لازمی قرار دے دیں‘ جولائی یا اگست کے مہینے میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر بند کر دیے جائیں‘ ہنگامی حالات اور انتہائی ضروری دفاتر اور محکموں کے آدھے عملے کو بھی چھٹی پر بھیج دیا جائے‘ ان لوگوں کو پابند بنایا جائے یہ لوگ چھٹیوں کا مہینہ اپنے شہر میں نہیں گزاریں گے‘ یہ خواہ کسی گائوں چلے جائیں مگر یہ ایک مہینہ اس شہر میں نہیں رہیں گے جہاں یہ کام کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے اس ایک فیصلے سے لوگوں کی جسمانی اور ذہنی حالت بدل جائے گی‘ لوگ نارمل ہونے لگیں گے۔
دوسرا‘ میرا خیال ہے ہم اگر موبائل فون کا استعمال بھی کم کر دیں‘ ہم شام کے بعد فون بند کر دیں یا پھر اس کی آواز بند کر کے اسے کسی طاق میں رکھ دیں اور اپنے خاندان کو وقت دیں تو اس سے بھی ہماری سماجی ٹینشن میں کمی واقع ہو گی‘ ہم میں سے کوئی شخص صدریا وزیراعظم نہیں ہے اور ہمارا فون دنیا کو تیسری جنگ سے بھی نہیں بچا سکتا چنانچہ ہم اگر اپنی زندگی میں امن پیدا کرنے کے لیے چند گھنٹوں کے لیے فون آف کر دیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی‘ کوئی شہاب ثاقب اپنے مدار سے نکل کر زمین پر حملہ آور نہیں ہوگا۔
ہم لوگ فون اٹھا کر ایسے پھرتے ہیں جیسے ہمارے فون نے دنیا کا سارا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور آخری بات ہم اگر فلسطین سمیت دنیا کے بڑے بڑے مسئلے حل کرنے سے پہلے اپنی موٹر سائیکل کی سیٹ ٹھیک کر الیں یا گاڑی کا سائلنسر ٹھیک کرا لیں تو بھی ہماری زندگیوں میں امن آ جائے گا کیونکہ ہمیں منہ دھونا نہیں آتا لیکن ہم پوری دنیا کے ٹھیکیدار ہیں‘ ہم زندگی میں کبھی گوجرخان تک نہیں گئے مگر امریکا کو فتح کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ہم فشار خون کا شکار نہ ہوں توکیا ہوں!۔

Sunday, 20 July 2014

Siraj ul Haq talking on Gaza Issue in Karachi at Iftar with Journalists. by Wussat Ullah Khan

آج کی شام غزہ کے نام
وسعت اللہ خان
سنیچر کی شام امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان محترم سراج الحق کی جانب سے سیاسی، سماجی و مذہبی معززین ِ کراچی اور چنیدہ صحافیوں کے لیے دعوتِ افطار کا اہتمام تھا۔اسٹیج کا بیک ڈراپ وہ پینا فلیکس تھا جس پر مسجدِ اقصی کے گنبد کے آگے ایک بلند زخمی خون آلود ہاتھ اٹھا ہوا تھا اور لکھا تھا آج کی شام غزہ کے نام ۔قناتوں پر ہلاک بچوں اور بڑوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔

جب میں وہاں پہنچا تو امیرِ جماعتِ اسلامی کا خطاب جاری تھا۔ وہی گفتگو جسے سنتے سنتے ہمارا بچپن براستہ لڑکپن جوانی کے راستے ادھیڑ عمری کے چوک سے مڑتے ہوئے بڑھاپے کی دھلیز تک جا پہنچا ہے۔ وہی گفتگو جو اب تھوتھا چنا باجے گھنا کا محاوراتی پل بھی مدت ہوئی عبور کرچکی۔اباسیوں کا سبب یہ باسی گفتگو ، نہ سننے والے کو معلوم کہ کیا سن رہا ہے، نہ بولنے والے کو پتہ کیا کہہ رہا ہے۔بس کہے چلے جا رہے ہیں، بس سنے چلے جا رہے ہیں۔
جس طرح فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی دشمنی باقی دنیا کی روزمرہ زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے اسی طرح اس دشمنی میں شدت آنے پر چند روزہ واویلائی ردِ عمل بھی ایک روایت بن چکا ہے۔اس کا مقصد کسی اور کو نہیں اپنے ہی دل و دماغ کو سمجھانا ہوتا ہے کہ میں نے فلسطینوں کی حمایت کرکے اور اسرائیل پر چار حرف بھیج کے اپنا فرض پورا کردیا۔ اب بھاڑ میں جاؤ تم اور جہنم میں جائے اسرائیل اور امریکہ بھی۔
سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ آج پھر امتِ مسلمہ محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی ہے۔( حالانکہ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو وہاں کوئی نصرانی اور یہودی نہیں تھا۔نہ ہی راجہ داہر نے خلافت بنو امیہ پر فوج کشی کی تھی۔جبکہ صلاح الدین ایوبی نے ساری جنگیں یورپ سے حملہ آور ہونے والے صلیبوں سے لڑی تھیں اور صلیبی یہودیوں اور مسلمانوں کے یکساں دشمن تھے )۔محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو اس جھگڑے میں گھسیٹنے کے بجائے زیادہ موزوں جملہ یہ ہو سکتا تھا کہ آج پھر امتِ مسلمہ کسی ہٹلر کو پکار رہی ہے۔لیکن شاید یہ کہنا اس لیے مناسب نہ ہوتا کہ کئی حکمرانوں کی پیشانیوں پر بل پڑ سکتے تھے۔

آگے فرمایا کہ عالمِ اسلام کو متحد ہو کر صیہونیت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ویسے تو سعودی عرب کو عالمِ اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ضرورت ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ کو فعال کیا جائے۔ہائے ہائے ۔۔۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
پھر فرمایا اگرچہ عالمِ اسلام کے حکمران سو رہے ہیں مگر امتِ مسلمہ جاگ رہی ہے۔اگر عزم اور نیت ہو تو جنگل کے جانور بھی راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔کچھ تلواروں کا بھی ذکر ہوا۔ فلسطینیوں کو باہمی اختلافات ختم کرنے اور متحد ہونے کی بھی تلقین کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینی خود کو تنہا نہ سمجھیں، پورا عالمِ اسلام ان کے ساتھ ہے۔ وقت آنے پر ہم میں سے ہر ایک ان کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دے گا۔
تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سا وقت آئے گا جب عالمِ اسلام میں سے ہر ایک خون کا آخری قطرہ بہائے گا۔ ویسے سب جوشیلے مقرروں کو خون کا آخری قطرہ بہانے سے ہی اتنی دلچسپی کیوں ہے۔خون کا پہلا قطرہ بہانے کی بات کوئی نہیں کرتا۔لیکن قطرہ بھلے آخری ہو یا پہلا، جب باتوں میں ہی بہنا ہے تو کوئی سا بھی بہا لیں۔ویسے میں نے آج تک قطرہ ٹپکتے تو دیکھا ہے بہتے بھی کسی دن دیکھ ہی لوں گا۔
اس تقریرِ پرتاثیر سے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے زیادہ مقصود سات سے ساڑھے سات بجانا تھا۔سو جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو امیر صاحب سمیت تمام روزہ داروں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ کھجور اٹھائی ، خون کے رنگ کا ٹھنڈا روح افزا انڈیلا اور غزہ کے پیاسوں کو یاد کرتے ہوئے روزہ کھولا۔

نمازِ مغرب کے بعد شہدائے غزہ کے لیے بلند درجات اور ان کے مصائب کے خاتمے کے لئے دل ہی دل میں دعا مانگی گئی۔اور پھر ٹوٹے دل کے ساتھ قورمہ ، بریانی ، کھیر اور آئس کریم کی جانب نگاہ کی گئی۔کچھ نے کھانے کے بعد غزہ کے بھوکوں کو یاد کرتے ہوئے دور خلاؤں میں نگاہیں گاڑ کر سگریٹ سلگا لی اور باقی سلگتے دلوں کے ساتھ ڈکار لیتے لیتے اپنے اپنے گھروں اور کاموں کو رخصت ہوئے ۔اس وقت غزہ میں لگ بھگ پانچ بج رہے تھے اور اذانِ عصر بمباری کی گونج سے لگاتار لڑ رہی تھی۔

Saturday, 19 July 2014

The Waiting Death by Javed Chaudhary

اگر وہ مجھ سے مہر لگوانے میرے آفس نہ آتا تو شائد آج میرے آنسو نہ رُکتے




Friday, 18 July 2014

Second Terrorist Identified of Raiwind Operation

رائے ونڈ آپریشن میں    ہلاک ہونے والے دوسرے دہشت گرد کی بھی شناخت ہو گئی

لاہور: گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں ہلاک ہونے والے دوسرے دہشت گرد کی شناخت محمد طفیل کے نام سے ہوئی ہے جس کا تعلق القاعدہ کے مقامی نیٹ ورک سے ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایلیٹ فورس سے مقابلے میں مارے جانے والے دوسرے دہشت گرد کی شنا خت 22 سالہ محمد طفیل کے نام سے ہوئی ہے۔ محمد طفیل کا تعلق پاک پتن سے ہے اور وہ القاعدہ کے مقامی نیٹ ورک کا رکن تھا جس میں بہت سی خواتین سمیت پورے کے پورے خاندان بھی شامل ہیں۔
سیکیورٹی ادارے کے اہلکاروں نے چند روز قبل یاسمین نامی خاتون کو شک کی بناء پر حجرہ شاہ مقیم سے حراست میں لیا جس کی نشاندہی پر علی شان نامی نوجوان گرفتار ہوا جس سے بڑی تعداد میں ڈیٹونیٹر، دستی بم، ٹائم ڈیوائسز اور دھماکا خیز مواد، کیمیکل اور پولیس کی وردیاں بھی برآمد ہوئیں اور پھر لاہور کے علاقے سےحجرہ شاہ مقیم سے ہی حراست میں لئے گئے آزاد خان نے احسن محبوب اور محمد طفیل کی نشاندہی کی جس کے بعد 2 روز قبل ایلیٹ فورس کے جوانوں نے رائے ونڈ میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور 5 زخمی ہوئے جب کہ حملے میں دونوں دہشت گرد بھی مارے گئے۔

رائیونڈ میں ایلیٹ فورس سے مقابلے میں مارے جانے والے پہلے دہشت گرد کی شناخت حجرہ شاہ مقیم کے احسن محبوب کے نام سے ہوئی تھی جس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔

Mobile Battery Charging Issue Resolves.

بیٹری بار بار چارج کرنے کا جھنجٹ ختم،نیا موبائل کور تیار


نیویارک (نیوز ڈیسک) جدید سمارٹ فون پیچیدہ فنکشن اور بڑی سکرین کی وجہ سے بیٹری کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بار بار چارجنگ کرنا پڑتی ہے۔ صارفین کو اس مسئلے سے بجات دلانے کیلئے فون کیلئے ایک ایسا غلاف (Case) ایجاد کردیا گیا ہے جس میں انتہائی کم توانائی استعمال کرنے والی سکرین لگی ہے اور یہ فون کی سکرین آن کئے بغیر ہی آنے والے میسج، کال اور ای میل وغیرہ کی معلومات فراہم کرے گا۔ آپ اس Case کی سکرین پر اپنے میسج اور ای میل پڑھ بھی سکتے ہیں۔ اسے Inkcaset کا نام دیا گیا ہے اور اسے بنانے والی کمپنی Oaxis کا دعویٰ ہے کہ اس کا بیٹری کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ فون کی روشن سکرین کے بار بار آن ہونے کی وجہ سے بیٹری جلدی ختم ہوجاتی ہے جبکہ Incaset انتہائی معمولی توانائی استعمال کرتے ہوئے فون کی بیٹری کو بہت لمبے عرصے تک محفوظ رکھتا ہے۔ اس کا ڈسپلے بھی سادہ اور انتہائی واضح ہے۔ یہ 79 Case ڈالر (تقریباً 8000 پاکستانی روپے) میں دستیاب ہے۔

Mysterious Hole on Extreme North of the Earth

زمین کے دہانے پرپر اسرار سوراخ نے سب کو چکرا دیا


ماسکو (نیوز ڈیسک) کیا یہ خلائی مخلوق کا کام ہے، زمین کے اندر کوئی بہت بڑا دھماکہ ہوا ہے یا پھر آسمان سے کوئی شہاب ثاقب گر اہے؟ یہ وہ 
سوالات ہیں جو زمین کے انتہائی شمال میں واقع بے آب و گیاہ برف کے صحرا سائبیریا میں سینکڑوں فٹ قطر کا سوراخ نمودار ہونے پر پوچھے جارہے ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسدان حیران ہیں کہ آخر زمین میں اتنا بڑا سوراخ کیسے ہوگیا، اس کی گہرائی کتنی ہے اور آخر اس کے اندر کیا ہے؟ فضا سے لی گئی تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ سائبیریا کے علاقے یمال میں تقریباً 262 فٹ قطر کا خوفناک چوڑائی اور گہرائی والا سوراخ ہوچکا ہے۔ سائبیریا کا علاقہ روس کے شمال میں واقع ہے اور اس علاقے کے انتہائی شمال میں یمال کا علاقہ واقع ہے جو دنیا کی دور افتادہ ترین جگہ سمجھی جاتی ہے اور اسی لئے اسے ”دنیا کا آخری کونہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ قدرتی گیس کی پیداوار کیلئے بہت مشہور ہے اور یہاں روسی پائپ لائنوں کے علاوہ زندگی کے کوئی آثار نہیں نہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کے نیچے گیسوں کے جمع ہوجانے کے بعد دھماکہ ہوا ہے تو بعض کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں درجہ حرارت بڑھنے سے یہ سوراخ ہوگیا ہے، ابھی تک کوئی بھی حتمی وجہ سامنے نہیں آئی ہے اور سائنسدانوں کی ایک ٹیم کو تحقیقات کیلئے 
علاقے کی طرف روانہ کردیا گیا ہے۔

International Institutions denied funding without Indian permission for Bhasha Dam

بھاشا ڈیم کے لیے عالمی اداروں کا  بھارتی اجازت کے بغیر فنڈنگ سے انکار


اسلام آباد: عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھارت سے این اوسی لیے بغیر بھاشاڈیم کیلیے امدادی رقم دینے سے انکارکردیا

4500 میگاواٹ بجلی پیداکرنے والے اس منصوبے کااعلان سابق صدر جنرل(ر ) پرویزمشرف نے 17جنوری 2006 کوکیا اورچند ماہ بعدافتتاح بھی کردیا جبکہ سابق وزیراعظم گیلانی بھی 18اکتوبر 2011کو اس منصوبے کا افتتاح کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فنڈزکی عدم دستیابی کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہوتاجائے گا۔ اس وقت ڈیم کی تعمیرپر 12ارب 60کروڑ ڈالرکا تخمینہ لگایاگیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارپہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ دیامربھاشا اور داسوڈیم ایک ساتھ شروع کیے جائیںگے

Thursday, 17 July 2014

Establishing of Mini IMF Heading by India

بھارت کی سربراہی میں دنیا کی پانچ ابھرتی معاشی طاقتوں کا  منی "آئی ایم ایف" کے قیام کا اعلان۔




برازیلیا: بھارت، چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ پر مشتمل دنیا کی پانچ اُبھرتی معاشی طاقتوں نے عالمی مالیاتی ادارے سے  نبردآزما ہونے کے لیے ” منی آئی ایم ایف ” کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کے پہلے صدر کا تعلق بھارت سے ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پانچوں ممالک کے سربراہان مملکت نے متفقہ طور پر اِس نئے ادارے کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کا بنیادی مقصد مستقبل کے معاشی بحران سے نمٹنا اور آئی ایم ایم کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ ابتدائی طور پر ” منی آئی ایم ایف” کے لیے سرمائے کا حجم 50 ارب ڈالر رکھا جائے گا جسے 100 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ پانچوں ممالک نے اِس بات پر بھی اتفاق کیا کہ مالیاتی ادارے کا ہیڈکوارٹر شنگھائی میں بنایا جائے جبکہ اس کے پہلے صدر کا تعلق بھارت سے ہوگا اور پہلے بورڈ کے سربراہ برازیل سے ہونگے۔ معاہدے کے مطابق پانچوں ممالک برابری کی حیثیت سے سرمایہ لگائیں گے تاکہ کسی ایک ملک کی حاکمیت ممکن نہ ہوسکے۔
برازیل کے شمالی مشرقی شہر فارٹیلیزا میں تقریب کے دوران برازیل کے صدر ڈیلما روسوف نے منی آئی ایم ایف کے قیام کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ  معاشی نظام کو درست سمت میں لے جانے کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے بھی معاہدے کو نئی معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے  ایک مضبوط طریقہ قرار دیا۔ اِس موقع پر جینی صدر جنپنگ نے کہا کہ عالمی سطح پرمعاشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ترقی پزیر ممالک کو نمائندہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا کہنا تھا کہ ہمیں اب پُرامن اور مستحکم دنیا کے لیے متحد ہوکر اور واضح موقف کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ اِن پانچوں ممالک کا تعلق دنیا کی 40 فیصد آبادی اور پانچویں مستحکم معیشت سے ہے جبکہ یہ اقدام امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے لیے ایک بُری خبر سے کم نہیں  کیونکہ اُس نے روس کو جی 8 ممالک سے نکالنے کے لے اہم کردار ادا کیا تھا مگر اب وہ منی آئی ایم ایف کا حصہ بن چکا ہے۔
Via Express Urdu

Facebook Followers