Monday, 25 August 2014

Elections 2013 were rigged. Afzal Khan & Kanwar Dilshad

عام انتخابات 2013 میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، سابق الیکشن ایڈشنل سیکریٹری  الیکشن کمیشن  کا انکشاف

سابق ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے عام انتخابات 2013 میں دھاندلی کی تصدیق کرتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں جبکہ ان کا کہنا تھا کہ اس  دھاندلی میں سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری سمیت سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی ملوث تھے جب کہ  چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کام کرنے سے خوف زدہ تھے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور عام انتخابات 2013 کو جسٹس (ر)ریاض کیانی نے تباہ کیا، انتخابات میں انتہائی منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی، پہلے دن سے الیکشن میں دھاندلی کا شک تھا لیکن اب یقین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے الیکشن کمیشن میں  تعینات کیا جبکہ یہ کام الیکشن کمیشن کا تھا اور فخرالدین جی ابراہیم نے سپریم کورٹ کو ریٹرننگ افسران  کی تعیناتی کے لئے درخواست بھیج کر افتخار محمد چوہدری کو بچایا۔
افضل خان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں 35 نہیں بلکہ سیکڑوں پنکچر لگائے گئے، پنجاب میں بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی کیونکہ فخر الدین جی ابراہیم کام کرنے میں خوف زدہ تھے اور انہوں نے آنکھیں بند کرلیں تھیں جبکہ انہیں اس تمام صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا،جس کو جہاں موقع ملا اس نے دھاندلی کرائی جس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری،سابق چیف جسٹس تصدق  حسین جیلانی سمیت جسٹس(ر)خلیل الرحمان رمدے بھی ملوث تھے جبکہ جہاں جہاں کیمرے لگائے گئے تھے وہاں دھاندلی نہیں ہوئی۔ ان کہنا تھا کہ چوہدری نثارعلی کو کس طرح پتا چلا کہ ہزاروں ووٹ ناقابل تصدیق ہیں جبکہ سارے ووٹ سیل ہوتے ہیں،عمران خان انتخابی دھاندلی سے متعلق سچ بول رہے ہیں۔
سابق ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا کہ الیکشن ٹریبونلز  بھی سمجھوتے کررہے ہیں، ووٹوں کی تصدیق زیادہ سے زیادہ 7 دن میں ہوسکتی ہے لیکن 60 دنوں میں نمٹائے جانے والے کیسوں کو 365 دن میں بھی حل نہیں کیا گیا اور دھاندلی کی شکایت کے کیسز کو جان بوجھ کر لمبا کیا گیا، الیکشن کو 14 ماہ گزر چکے ہیں اگر یہ لوگ ملوث نہ ہوتے تو اب تک حلقے کھولے جاسکتے تھے۔ افضل خان نے کہا کہ میں بھی کسی حد تک قوم کا مجرم ہوں جبکہ دھاندلی میں جو بھی ملوث ہے اس پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ چلاکر پھانسی دی جائے۔
دوسری جانب جسٹس (ر) ریاض کیانی نے افضل خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افضل خان کے الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں، افضل خان ملازمت میں توسیع چاہتے تھے لیکن وہ اس کے اہل نہیں تھے اور خواہش پوری نہ ہونے پر وہ الزامات پر اتر آئے ہیں۔

میچ فکس ہو چُکا تھا،  نجم سیٹھی کا اہم کردار تھا۔ کنور دلشاد

اسلام آباد: سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بھی افضل خان کے الیکشن2013ء میں دھاندلی کے الزامات کی تصدیق کر دی۔
اپنے ایک انٹرویو میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ ڈیڑھ سال سے الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے بارے میں اخبارات میں لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں بے جا مداخلت کی گئی۔ انتخابات سے قبل ہی میچ فکس ہو چکا تھا۔ جس میں پنجاب کی نگراں صوبائی حکومت اور نجم سیٹھی کا اہم کردار تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو الیکشن کمیشن کو دباؤ میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔
کنور دلشاد نے کہا کہ افتخار چوہدری کا ریٹرننگ افسران سے خطاب کس قانون کے تحت تھا۔ تمام ریٹرننگ افسران دھاندلی میں ملوث نہیں تھے۔ متنازعہ آر اوز کو طلب کر کے ان سے خفیہ سیل کی تشکیل کے حوالے سے حلف لیا جائے۔

Thursday, 14 August 2014

The Bandit Queen: Phoolan Devi's killer Sentenced life

Phoolan Devi's killer Rana sentenced to life


A trial court on Thursday sentenced Sher Singh Rana, the lone convict in the killing of bandit-turned-politician Phoolan Devi, to life imprisonment, reports said.
Rana, 35, was convicted under sections 302 (murder), 307 (attempt to murder) and 34 (common intention) of the Indian Penal Code for murdering Phoolan at her residence in New Delhi on July 25, 2001.
According to reports, Patiala House court also imposed a fine of Rs. 1 lakh on Rana.
Rana was held guilty of the daylight murder of the then Samajwadi Party MP from Mirzapur constituency in Uttar Pradesh by a Delhi court last week.
The court had acquitted the 10 other accused men — including his brother Vijay on the grounds that the prosecution failed to provide enough evidence for a conviction against them.
Strong forensic and circumstantial evidence nailed Rana in the Phoolan Devi murder case.
Rana was convicted on the grounds that his fingerprints were found on the pistol which was used to shoot 37-year-old Phoolan in front  of her Ashoka Road residence in south Delhi.
It also took into account that the car used in the crime was registered in Rana’s name.
Phoolan was shot dead from close range by three masked gunmen in the heart of the capital’s VIP area as she returned home for lunch after attending Lok Sabha.
As per the prosecution’s case, Rana, who had dropped Phoolan to Parliament, opened fire on her as soon as she returned to her Ashoka Road residence for lunch.
She was hit in the head and the stomach.
While fleeing the scene of crime, Rana dropped his country-made pistol. He also fired a shot while escaping in his car, the police alleged.
The police recovered the cars, weapons — including a Webley & Scott  revolver — mobile phones, SIM cards and the clothes worn by the accused at the time of offence.
Forensic examination of the bullets extricated from the body of the slain MP confirmed that they were fired from the weapons recovered from the accused.


Rana was found guilty of murder, attempt to kill, and common intent.

Monday, 11 August 2014

Freedom Fighter Bhagat Singh and Social Worker Sir Ganga Ram Belong to Pakistan

پاکستان میں بھگت سنگھ اور گنگارام کے گاؤں آج بھی نازاں



پاکستان اور بھارت کے موجودہ تعلقات کے پیش نظر آج یہ تصور کرنا قدرے مشکل لگتا ہے کہ کبھی یہ دونوں ملک ایک ہی تھے۔
مگر پاکستان میں بھگت سنگھ اور سر گنگارام کے گاؤں میں پہنچ کر یہ احساس بخوبی ہو جاتا ہے کہ آزادی کی جنگ پاکستان اور بھارت دونوں کی مشترکہ وراثت تھی۔
بھگت سنگھ اور سرگنگارام کی پیدائش پاکستان کے صوبے پنجاب کے فیصل آباد (اس وقت کے لائل پور) کی تحصیل جڑانوالا میں ہو‏ئی تھی۔
اپریل 1851 کو جڑانوالا کے گاؤں گنگاپور میں پیدا ہونے والے سر گنگارام کو ایک طرح سے لاہور کا بانی کہا جاتا ہے۔
آج بھی لاہور میں ان کی ڈیزائن کی ہوئی نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور میوزیم اور جنرل پوسٹ آفس جیسی کئی عمارتیں ہیں۔ لاہور کے معروف سر گنگارام ہسپتال کی بنیاد بھی انھوں نے ہی رکھی تھی۔
سر گنگارام کے آبائی گاؤں کا نام گنگاپور بھی انھی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
گنگا  پور

گاؤں کے ایک زمیندار شکیل احمد شاکر کا خاندان 1880 سے اس گاؤں میں آباد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے نانا، دادا نے سر گنگارام کے ساتھ کام کیا تھا۔
انھوں نے بتایا: ’تقسیم کے بعد پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے نام سے منسوب سڑکوں اور دوسرے مقامات کے نام بدلے گئے لیکن یہاں کے لوگوں نے گاؤں کا نام نہیں بدلنے دیا۔ سر گنگارام کی خدمت ہندو، سکھ اور مسلمانوں سب کے لیے تھی۔‘


سر گنگارام نے گنگاپور میں ’کوآپریٹیو فارمنگ سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے لیے 56 ایکڑ زرخیز زمین عطیہ کی تھی۔ آج گنگاپور میں اس کی آمدنی سے عوام کی فلاح و بہبود کے ترقيياتي کام کیے جا رہے ہیں۔
جس گھر میں گنگارام رہتے تھے، وہ ابھی بھی اچھی حالت میں ہے اور گاؤں کے لوگوں کا خیال ہے کہ اسے لائبریری میں تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں بھی سر گنگارام کے بارے میں جان سکیں۔


گاؤں کے ایک سماجی کارکن راؤ دلدار کہتے ہیں کہ ’گاؤں کے لوگ سر گنگارام کا بہت احترام کرتے ہیں کیونکہ انھی کی بدولت اس گاؤں میں خوشحالی ہے۔‘

بھگت پور

گنگاپور سے تقریبا 20 کلومیٹر دور فیصل آباد جڑانوالا روڈ پر آزادی کے ایک ہیرو بھگت سنگھ کا گاؤں بنگا ہے۔ اب یہ گاؤں بھگت پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بھگت سنگھ کا آبائی گھر گاؤں کے نمبردار جماعت علی ورك کی ملکیت ہے۔ تقسیم کے بعد ان کے دادا سلطان ملک کو یہ گھر ملا تھا۔


جماعت علی کہتے ہیں ’تقسیم کے بعد بھگت سنگھ کے بھائی كلبير سنگھ 1985 میں پہلی بار یہاں آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ گھر بھگت سنگھ کے خاندان کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھگت سنگھ کے ہاتھ کا لگایا ہوا آم کا درخت آج بھی گاؤں میں ہے۔


جماعت علی کے مطابق ’بھگت سنگھ اس زمین کا بیٹا ہے۔ گاؤں کے لوگ اسے ہیرو مانتے ہیں کیونکہ اس نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ’ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک آزادی کی تاریخ میں بھگت سنگھ کا نام نہ آئے، تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔‘

Saturday, 9 August 2014

Who are Yazidi?

یزیدی کون ہیں؟



مشرق وسطیٰ میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی پیش قدمی کے متاثرین میں اقلیتی یزیدی برادری کے 50 ہزار افراد بھی شامل ہیں۔
یہ افراد کے عراق کے شمال مشرقی پہاڑی سلسلے میں خوراک اور پانی کے بغیر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
مصنفہ ڈائنا ڈاک نے اس پراسرار اقلیتی فرقے کے عقائد اور ان کی روزمرہ زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
اپنی مشکلات کے سبب اچانک خبروں میں آنے کے بعد بھی یزیدی بین الاقوامی توجہ نہیں چاہتے۔
ان کے غیرمعمولی عقیدے کی وجہ سے اکثر اوقات اس فرقے کو بے جا شیطان کی عبادت کرنے والا گروہ کہا جاتا ہے۔
یہ فرقہ ترکی کے جنوب مشرقی، اور شام اور عراق کے شمالی مغربی علاقوں میں روایتی طور پر چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کی کل تعداد کے بارے میں بتانا مشکل ہے تاہم کچھ اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 70 ہزار سے پانچ لاکھ کے درمیان ہے اور گذشتہ صدی کے دوران ان کی تعداد میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

اس خطے کے دیگر اقلیتی برادریوں، مثلاً علوی اور دروز کی طرح کوئی شخص یزیدی برادری میں باہر سے شامل نہیں ہو سکتا۔
عراقی شہر موصل کے مغرب میں واقع یزیدی برادری کے مرکزی خطے کوہ سنجار میں اس برادری کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خیال میں اس برادری کا تعلق امیہ شاہی خاندان کے ہے، جب دوسرے انتہائی غیرمقبول حکمران یزید ان معاویہ سے جوڑتے ہیں۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فرقے کا یزید ابن معاویہ یا ایران کے شہر یزد کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم جدید فارسی لفظ ایزد سے ہے جس کا مطلب خدا۔ ایزدیز نام کا عام مطلب خدا کے عبادت کرنے والے ہیں اور یزیدی بھی اپنے فرقے کا نام اسی طرح سے بیان کرتے ہیں۔

یزیدی قرآن اور بائبل کا احترام کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی روایات زبانی ہی ہیں۔ رازداری کی وجہ سے یزیدی فرقے کے بارے میں غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں کہ اس فرقے کا تعلق پارسی مذہب سے ہے، جس میں یہ روشنی اور تاریکی کے علاوہ سورج تک کی پوجا کرتے ہیں۔
موجودہ تحقیق کے مطابق اگرچہ ان کے عبادت خانے سورج کی تصاویر سے سجائے جاتے ہیں اور ان کی قبروں کا رخ مشرق کی جانب سے طلوع آفتاب کی طرف ہوتا ہے، تاہم ان کے عقیدے میں اسلام اور عیسائیت کے کئی جز شامل ہیں۔
شادی کی تقریب میں یزیدی راہب روٹی دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ دلھا اور ایک حصہ دلھن کو دیتا ہے۔ شادی کی تقریب میں دلھن سرخ لباس پہنتی ہے اور چرچ جاتی ہے۔ دسمبر میں یزیدی راہب سے سرخ شراب پینے کے بعد تین دن روزہ رکھتے ہیں۔ 15 سے 20 دسمبر کے دوران یہ موصل کے شمال میں واقع شیخ ادی کے مزار پر جاتے ہیں اور وہاں دریا میں مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں جس میں جانوروں کی قربانی بھی شامل ہے۔
اس فرقے کے خدا کو یزدان کہا جاتا ہے اور اس کا اتنا اعلیٰ مقام ہوتا ہے اس کی براہ راست عبادت نہیں کی جا سکتی۔ اسے غیر متحرک طاقت کے مالک سمجھا جاتا ہے، اور وہ زمین کا نگہبان نہیں بلکہ خالق سمجھا جاتا ہے۔
اور اس سے سات عظیم روحانی طاقتیں نکلی ہیں جن میں ایک مور فرشتہ ملک طاؤس ہے اور جو خداوندی احکامات پر عمل درآمد کراتا ہے۔ ملک طاؤس کو خدا کا ہمزاد تصور کیا جاتا ہے۔

یزیدی ملک طاؤس کی دن میں پانچ بار عبادت کرتے ہیں۔ یزیدیوں کے نزدیک ملک طاؤس کا دوسرا نام شیطان ہے، جو عربی میں ابلیس کو کہتے ہیں، اور اسی وجہ سے یزیدی فرقے کو شیطان کی عبادت کرنے والا کہا جاتا ہے۔
یزیدی عقائد کے مطابق روح ایک جسم سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے اور بار بار پیدائش کا عمل روح کو خالص بناتا ہے۔ کسی بھی یزیدی کی بدترین سزا اسے برادری سے خارج کیا جانا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے اس کی روح کا خالص ہونے کا عمل روک جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یزیدیوں کا کسی دوسرا مذہب اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ترکی، عراق اور شام کی سرحد سے متصل دور افتادہ دیہات جو ایک عرصے سے ویران پڑے تھے، اب یزیدیوں سے آباد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان لوگوں نے وہاں اپنی مدد آپ کے تحت مکانات کی تعمیر شروع کی ہے۔ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے متعدد یزیدیوں نے واپس آنا شروع کر دیا ہے کیونکہ ترکی کی حکومت نے ان کو تنگ کرنا بند کر دیا ہے۔

صدیوں سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے کے باوجود یزیدی برادری نے اپنا عقیدہ ترک نہیں کیا۔ اگر عراق اور شام کے علاقوں سے دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے یزیدی برادری کو بے دخل کر دیا تو زیادہ امکان ہے کہ یہ جنوب مشرقی ترکی میں آباد ہو جائیں اور امن سے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزاریں۔

Chicago Candy. Codes of spending Life.


If you want to learn codes that how to spend a 'human' life, you should pray for a Chicago Candy in your life. Mr. Javed Chaudhary is not only a Columnist but a good guide. All conflicts aside , there is no writer as Mr. Javed Chaudhary is. Thank you Chaudhary that you are in my Life. You are my Chicago Candy.
By Javed Chaudhary 

Democracy Completed 5 Years.


by  Javed Chaudhary

Friday, 8 August 2014

Saudi Arabia refused to shelter to Sharif Family- Dr. Qadri

شریف خاندان کو اس دفعہ سعودی عرب نے بھی پناہ دینے سے انکار کر دیا-ڈاکٹر طاہر القادری
لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہر القادری کا کہنا ہے کہ  حکمرانوں نے خاندانی سطح پر بھاگنے کا منصوبہ بنالیا ہے لیکن ان کو اس مرتبہ سعودی عرب نے بھی ٹھکانہ دینے سے بھی انکار کردیا ہے جب کہ شریف خاندان بھاگ کر امریکا میں پناہ حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بنا رہے ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ حکمران ریاستی قوت کو اپنے ناپاک عزائم کے لئے استعمال  کررہے ہیں، گھروں پر چھاپے مارنا اور کارکنوں کو گرفتار کرنا حکومت کی بوکھلاہٹ کا کھلا ثبوت ہے، حکومت کی دیواریں گرنے والی  ہیں اور ان کے خلاف  بغاوت کا مقدمہ درج کرانا انقلاب کی پہلی فتح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن وہ انہیں بتادیتے ہیں کہ ملک سے ظلم کے اندھیرے ختم ہونے اور انقلاب آنے تک وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ابھی تو یوم شہدا کا اعلان کیا ہے اور حکمرانوں نے خاندانی سطح پر بھاگنے کا منصوبہ بنالیا ہے لیکن ان کو اس مرتبہ سعودی عرب نے بھی ٹھکانہ دینے سے بھی انکار کردیا ہے، شریف خاندان بھاگ کر امریکا میں پناہ حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بنا رہے ہیں، حمزہ شہباز نے وزارت خارجہ کے ذریعے امریکی سفارت خانے میں اپنے گھریلو ملازموں تک کے بھی ویزوں کی درخواستیں دی ہیں لیکن ان لوگوں کو دنیا کا کوئی جمہوریت پسند ملک پناہ نہیں دے گا۔ حمزہ شہباز کی درخواست پر امریکی سفارت خانے نے ان کے ملازمین کے انٹرویو کی تاریخ 18 اگست مقرر کی لیکن انہیں ملک سے فرار ہونے کی اس قدر جلدی ہے کہ انہوں نے درخواست کی ہے کہ انٹرویو کو جلد از جلد کیا جائے۔ انہیں کینیڈا جانے کا طعنہ دینے والے سن لیں کہ اب کون امریکا فرار ہورہا ہے۔

سربراہ پاکستان عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ وہ کوئی مارشل لا نہیں عوام کا اقتدار دیکھ رہے ہیں، اس ملک میں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے جسے ختم کیا جائے گا۔ حکمرانوں سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات بنانے والوں کو حساب دینا ہوگا،18 کروڑ عوام کے معاشی قاتلوں کو کوئی محفوظ راستہ نہیں دیا جائے گا۔

Ten Truths about Electoral Rigging — a rebuttal


Ten Truths about Electoral Rigging — a rebuttal
Zahid F Ebrahim, in his article of August 4 titled, “Ten truths about electoral rigging”, published in The Express Tribune, presented a very biased view on the topic. The Election Commission of Pakistan (ECP) should have stepped in to allay doubts of any election rigging, but with this article, it seems that the neutrality that was needed to conduct a free and fair election was never there to begin with. It seems that this was the mindset from the start: to appease the powers that be, instead of giving Pakistanis even a semblance of a free and fair election.

I truly respect Mr Ebrahim and his father. I believe Mr Fakhruddin G Ebrahim is an honest person, but his appointment, especially considering his age, probably was the factor that failed Pakistan. This job required a commander, who would whip, snap and beat the life out of anyone who so much as stumbled in performing his duties to conduct transparent elections. I do not challenge the former chief election commissioner’s honesty or integrity on a personal level. I am aware that he, along with his family, have sacrificed a lot this past year — but I would like to raise some concerns here.
The ECP was given a mandate to conduct free and fair elections. This means an election that was 100 per cent fair. For Mr Ebrahim to argue that 73 per cent cases have been dismissed by election tribunals in 14 months, and that this is a better performance than what was witnessed in previous elections, does not make sense. He is content to see 73 per cent of the election delivered fairly, not 100 per cent.
Mr Ebrahim does not mention the fiasco of the magnetic ink in his article. The magnetic ink was supposed to be the Holy Grail, the primary check that would have ensured a transparent electoral process, but somewhere along the way, NADRA and the ECP lost their way and seemingly chose ink stamp pads. Yet, he is convinced that a free and fair election took place.
Mr Ebrahim also does not mention that the cost of scrutiny of papers was exorbitantly high. It served as a deterrent for candidates wanting to pursue full scrutiny for fear that it may cost them millions. A transparent ECP could have chosen to selectively waive the scrutiny fee, especially in cases where there might be genuine suspicion of rigging having taken place, even if just to allay public doubts regarding rigging allegations and to display that the ECP wants free and fair elections. The public perception is that the fee is there to hide NADRA’s flaws. Those who could afford to do so, dug deep into their pockets to pay the exorbitant fees and each case eventually exposed the magnetic ink flaw.
Then, Mr Ebrahim does not mention the issues of missing presiding officers, missing ballot boxes, missing stamps or even ballot papers that were found in various garbage dumps across Karachi. This happened in broad daylight and Karachiites were a witness to this. Re-polling was even called at the Hampton School Polling Station where Mr Ebrahim and his father voted. Not even a fleeting mention in the article shedding some doubts on what happened in Karachi?
Mr Ebrahim also failed to mention that the arguments presented by the PTI are mostly against returning officers having fudged results and doctored votes. It has not talked about the appointment of tribunal judges. There was not even a slight acknowledgment of the ‘typo’ error in Nawaz Sharif’s constituency in Mr Ebrahim’s article.
There was also no mention of the reasons behind the tribunals withholding cases of the four famous seats where the PTI has alleged rigging. Stay orders have been issued to slow proceedings. Inevitably, there will be suspicion as to who is involved behind this delay and this will fall on the ECP, the tribunals and the government for deliberately delaying these cases for fear that this may result in opening of a Pandora’s box.
Mr Ebrahim forgot to mention the reasons behind Imran Khan challenging the results of only four seats. These four seats represent just a drop in the ocean. It does not mean that rigging was not more widespread. The intention behind this was to show that the PTI only wanted to identify flaws in the system and fix them so that transparent elections can be held in the future. Exposing rigging in these four constituencies would not have made Imran Khan the prime minister. Yet, no one wanted to touch these seats, as it was feared that it would expose more widespread rigging. In my opinion, the ECP should have delivered a ‘perceivable’ free and fair election to the people of Pakistan. Having failed to do so, fingers will always be pointed towards it. How an electoral system works in totality defines whether it has the ability to deliver transparent elections.
Mr Ebrahim has chosen to attack a party that has used all avenues to fix this system: the ECP, tribunals, courts and parliament, but all of them failed to do their duty. The PTI has now just upped the ante to the dislike of many who are comfortable with this so-called free and fair voting process. Reforming the electoral system has been the PTI’s goal from day one. If the electoral system is not fixed now, the next elections will be held in exactly the same manner. One day, I hope we could have a genuinely free and fair election, which seems like a distant dream right now, considering that even people of the calibre of Justice (retd) Fakhruddin G Ebrahim can flounder. Hence, there is no option but for the Azadi March to go forth for the sake of Pakistan’s ‘azadi’.



Facebook Followers