Wednesday, 20 May 2015

Axact a Software Company Under Trial in Pakistan

ایگزیکٹ کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں
شہزاد ملک، عنبر شمسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو حکم جاری کیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی ایگزیکٹ کے خلاف جعلی ڈگریوں کے کاروبار کے الزامات کے بارے میں تحقیقات قانون کے مطابق کی جائیں۔



ایگزیکٹ کے ملازم امداد علی کی جانب سے دائر درخواست میں ایف آئی اے پر ہراساں کرنے اور کام سے روکنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ملازمین کو صبح سے ہی کام کرنے سے روک دیا جبکہ ایگزیکٹ کے خلاف پاکستان میں کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہے۔

درخواست میں عدالت سے گذارش کی گئی ہے کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی بنیاد پر ایگزیکٹ اور اس کے خلاف کارروائی سے روکا جائے، اور میڈیا گروپس کو بھی تاکید کی جائے جنہوں نے ان کے خلاف مہم چلائی ہوئی دراصل وہ ان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ سے خائف ہیں جس کا نام بول ہے۔

عدالت نے اس سلسلے میں وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور وزرات نشریات کو 26 مئی کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کی جانب سے ایگزیکٹ کمپنی کے بارے میں تحقیقات کے حکم کے بعد ایف آئی اے نے منگل کی صبح راولپنڈی اور کراچی میں کمپنی کے دفاتر پر چھاپہ مار کر 20 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔


امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ مبینہ طور پر جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے۔

ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر طاہر تنویر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اُنھوں نے ایگزیکٹ کے دفتر پر چھاپہ مار کر کمپیوٹر اور دیگر سامان اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 20 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کو ابھی تک باقاعدہ گرفتار نہیں کیا گیا اور ان سے اس ضمن میں پوچھ گچھ جاری ہے اور اگر وہ قصور وار ثابت ہوئے تو اُن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

طاہر تنویر کا کہنا تھا کہ قبضے میں لیے گئے سامان کی تحقیقات مکمل کرنے میں 24 سے 48 گھنٹے درکار ہیں جس کے بعد ان سے متعلق قانونی کارروائی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

وزارتِ داخلہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق چودھری نثار علی خان نے اس معاملے پر تحقیقات کے بعد ایف آئی اے کو فوری رپورٹ پیش کرنے کے احکامات دیے ہیں۔

ان تحقیقات میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ نیویارک ٹائمز کی خبر میں کتنی صداقت ہے اور کیا مذکورہ کمپنی کسی ایسے غیر قانونی کام میں ملوث ہے جس سے دنیا میں پاکستان کی نیک نامی پر حرف آ سکتا ہے۔

کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق کراچی میں بھی سافٹ ویئر کمپنی کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور کارپوریٹ اور سائبر کرائم سرکل کے تین افسران کی سربراہی میں ایک ٹیم نے منگل کو مرکزی دفتر کا دورہ کیا۔



ڈپٹی ڈائریکٹر کامران عطااللہ نے کراچی میں میڈیا سے مختصر بات چیت میں بتایا کہ تفتیش اس وقت ابتدائی مرحلے میں اس لیے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی صرف ملازمین کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں بیورو چیف ڈیکلن والش نے پیر کو ایگزیکٹ کے حوالے سے اخبار میں لکھا تھا جس میں کمپنی پر الزام لگایا گیا تھا کہ انٹرنیٹ پر امریکہ، کینیڈا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں فروخت کرنے والی جعلی ڈگریوں سے ایگزیکٹ مبینہ طور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ خبر میں کمنپی کے سابق اہلکاروں اور متاثرین سے تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز نے ایگزیکٹ کی ان مبینہ آن لائن یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرست شائع کرتے ہوئے ان کا تکنیکی تجزیہ بھی پیش کر کے ان کا ایگزیکٹ سے مبینہ تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

واضح رہے کہ ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ ایک نیا نجی چینل ’بول ٹی وی‘ بھی لانچ کرنے جا رہے ہیں، جس میں ملک کے نامور صحافیوں اور اینکروں کو بھرتی کیا گیا ہے۔

اس خبر پر ایگزیکٹ نے کل نیویارک ٹائمز اور ڈیکلن والش کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا اور اپنی ویب سائٹ پر شائع بیان میں ان الزامات کو بے بنیاد، ہتک آمیز اور غیر معیاری قرار دیا۔

بیان کے مطابق ایگزیکٹ کے خلاف یہ مہم حریف میڈیا ادارے ایکسپریس اور جنگ گروپ گذشتہ دو برسوں سے چلا رہے ہیں کیونکہ ان اداروں کے چینل بول ٹی وی کی کامیابی سے ڈرتے ہیں۔


بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ خبر یک طرفہ ہے اور ایگزیکٹ شمالی امریکہ سے باہر دنیا کی سب سے زیادہ روایتی اور آن لائن تعلیمی سہولیات فراہم کرتی ہے۔
ایگزیکٹ کی ویب سائٹ پر مزید کہا گیا ہے کہ’ایگزیکٹ کے دس کاروباری یونٹ بالکل جائز اور قانونی ہیں۔‘ اس کے علاوہ ایگزیکٹ نے بلاگ ’پاک ٹی ہاؤس‘ کو سوشل میڈیا پر نیو یارک ٹائمز کی اس خبر پر ردِ عمل شائع کرنے پر بھی قانونی کارروائی کا نوٹس جاری کیا ہے۔

پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں بھی منگل کو اس پر بات چیت ہوئی اور سینیٹ کے سربراہ رضا ربانی نے ایوان کی کمیٹی کو اس پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے بارے میں کہا کہ ’یہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں اور ان کے کیا ارادے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور قومی اسمبلی میں اس پر بات ہونی چاہیے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیرِ داخلہ کو بھی اس پر ایک مفصل بیان دینا چاہیے، اگر اس بارے میں کوئی معلومات ہیں تو قوم کو بتائیں اور اگر کوئی غلط فہمی ہے تو واپس لے لیں۔‘



ایگزیکٹ کے بارے میں آج کےبڑے اخبارات کے سر ورق جن پر ایغزیکٹ کے علاوہ کوئی خبر نہیں






Tuesday, 5 May 2015

ہا سالینڈاور سکوٹو خلافت کاتاریخی وجغرافیائی پس منظر

ہا سالینڈاور سکوٹو خلافت کاتاریخی وجغرافیائی پس منظر

ہاسالینڈ ausalad Hمرکزی بلادسوڈان کا وہ وسیع علاقہ ہے جو مشرق میں وادی نیل سے لے کر مغرب میں بحر اوقیا نوس تک پھیلا ہوا ہے ۔اس کے ایک طرف صحرائے اعظم "سہارا sahra "اور دوسری طرف گھنا جنگل ہے۔ دسویں صدی عیسوی میںیہاں مخلوط النسل ہا سا قبائل آباد ہوئے جوپندریں صدی تک پہلے "بورنو"اور پھر" سو نگھائی "سلطنت کے زیر اثر رہے۔ سولھویں صدی میں " سو نگھائی " سلطنت کے زوال کے ساتھ طوائف الملو کی کا دور شروع ہوا۔ چودھویں صدی کے ابتداء تک شمالی افریقہ کے مسلمان تاجروں اور علماء کے ذریعے اسلام پھیلا مگر انسانی زندگی مافوق الفطرت ارواح کے زیر اثر ر ہی ۔"کانو" کے حکمران نے مشہور مسلمان فقیہ عبدالکریم المغیلی کو دعوت دی تھی اسی طرح حج کے رکن نے "ہا سا لینڈ" کا اسلامی دنیا کے ساتھ رابطہ قائم کر دیا ۔اسطرح اسلامی تعلیمات کا آغاز ہو گیا ۔ریاستوں میں اسلامی اقدار تو آگئیں مگر اجتماعی انسانی زندگی حکومتوں کے زیر اثر رہی جو روایتی برائیوں اور خرابیوں میں ملوث تھے لہذا اٹھارھویں صدی کے آخر تک لوگوں نے حکمرانوں کے بے جا امتیازی استحقاق اور اسلامی شعائر کے حق میں احتجاج شروع کر دیا تھا ان حالات میں ایک دینی عالم فوڈیو کے گھر عثمان نام کا بچہ پیدا ہوا جو بڑا ہو کر شیخ عثمان کے نام سے مشہور ہوا اور سکو ٹو خلافت کا امیر المومنین بنا۔

پیدائش اور تعلیم : شیخ عثمان بن محمد فوڈ یو 15دسمبر 1754ء کو قصبہ مراٹہ(Martta)میں ایک عالم دین فوڈیو کے گھر پیدا ہوئے ،جلد ہی ان کا خاندان اسی ریاست کے ایک قصبہ دیجل(Degel)منتقل ہو گیا ۔شیخ عثمان نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور قرآن کی ابتدائی تعلیم بھی انہی سے لی ۔انہوں نے 20سال تک عربی زبان وادب،تفسیر ،حدیث ،فقہ ،فلکیات ،ریاضی اور تصوف کی تعلیم بہت سے اساتذہ سے حاصل کی وہ اپنے دور کے انقلابی عالم جبریل بن عمر سے بہت متاثر تھے شیخ عثمان کے زہدوتقوی اور علم وفضل نے علم کے متلاشی طلبا اور علاقہ کے مسلم علماء کو اپنی طرف علم کی بناء پر راغب کر لیا روایتی درباری علماء ظالم فوجی حکومت کے استحکام کی دعائیں مانگتے تھے جب کہ دوسری طرف علماء کی بڑی تعداد ظلم وستم کے خلاف ہونے کے علاوہ اسلامی تعلیم کی حامی تھی ۔

طریقہ کاردعوت وتبلیغ اور تصنیف وتالیف: شیخ عثمان نے 1774ء یعنی بیس سال کی عمر میں واضح منصوبہ بندی کے تحت دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا اورایک کتاب افہام المنکرین لکھی جس میں بتایا کہ ہر صدی کے بعد ایک ایسا مجدد دین پیدا ہوتا ہے جو امر بالمعر وف اورنہی عن المنکر کے ذریعے تجدید دین کرتا ہے اور لوگوں کو راہ ہدایت پر لاتا ہے۔ اس معاشرے میں تنگ نظر علما کی بھر مار تھی لوگ رسومات وبد عات پر کار بندتھے عورت کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی۔شیخ عثمان نے 50 کے لگ بھگ کتابیں تحریر کیں جن میں قرآن وحدیث کے ذریعے معاشرے کے مسائل سے آگاہی کا شعور بھی دیا اور مخالف درباری علماء کے اعتراضات کے جوابات بھی دیے اورنام نہاد کشف وکرامات کے گمراہ صوفیاء کی بھی مذمت کی ۔ اپنی کتاب "احیاء السنتہ "میں انہوں نے بتایا کہ جو شخص کلمہ شہادت کے ساتھ ایمان کاا قرار کرتاہے وہ مسلمان ہے اسے کسی بھی طور کا فرنہیں قرار دیا جاسکتا ۔شیخ عثمان نے اپنا دعوتی کام "زمفارا "کی ریاست تک پھیلا دیا انہوں نے 5سال میں خوب دعوت کا کام کیا اکژلوگ ان سے متاثر تھے۔

حکومت سے مخالفت کا سامنا:"گابر "کے حکمران" با واجنگ ورزو" کو اپنی حکومت کی تشویش لا حق ہوئی لہذا اس نے شیخ عثمان کو 1788 ء میں بڑی عید کے موقع پر ماگامی کے شہر میں ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا وہ ناکام ہوا جو شیخ عثمان کے حق میں بہتر ہوا انہوں نے دعوت کا کام آزادی سے کرنے کا مطالبہ منظور کر الیا 1791ء میں شیخ عثمان اور انکے ہمراہی "دیجل" لوٹ آئے مغرب میں kebiاور آگے دریائے Niger کے پارilloاورمشرق میںzarmi تک کے علاقہ یعنی سارے "ہا سالینڈ "میں تعلیم اور دعوت کا کام پھیلا دیا ۔

معاشرہ کی اصلاح بذریعہ تعلیم وتدریس: شیخ عثمان جس علاقے میں جاتے وہاں مدرسہ قائم کرتے ،اساتذہ کو تربیت دیتے اور ہر جگہ حلقہ قائم کر کے کسی دوسرے علاقہ میں چلے جاتے ۔معاشرہ کی اصلاح انکے درس کا باقاعدہ حصہ تھا اس طرح انہوں نے ہاسالینڈ میں ایک پوری جماعت بنا ڈالی اور دیجل ایک یو نیورسٹی ٹاؤن بن گیا آپ تصنیف وتالیف میں مسلسل مصروف رہے جس کی مدد سے نظریاتی کارکن تیار ہوتے رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب "احیاء السنتہ " کے ذریعے یہ پیغام ہر ایک تک پہنچا یا کہ " کسی بھی عالم کا فتنہ و فساد کے زمانہ میں خاموشی بیٹھنا سنت کے خلاف ہے"۔

اہل خانہ کی تعلیم وتربیت: اس دعوت میں ان کے بھائی عبدا للہ اور بیٹے محمد بیلو نے چھوٹی بڑی 300 کے قریب کتابیں تحریر کیں اور اسکے علاوہ انہوں نے منظوم کلام کے ذریعے بھی لوگوں کے جذبات و احساسات کو چھیڑ کر نفسیاتی طور پر عوام کو اسلام کا پیغام پہنچانے اور ان کی اصلاح کا پیغام اچھی طرح سمجھا دیااور یہ بھی بتایا کہ فقہ کے چاروں ائمہ میں سے کسی کی بھی تقلید جائز ہے اس میں شدت پسندی سے گریز کا پیغام اور میانہ روی کا در س دیاور یہ بھی بتا یا کہ صرف ایک بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارا کوئی فعل قرآن و سنت سے متصادم نہ ہو اس بات سے شیخ عثمان کو خوب پذیرائی ملی اور لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے ۔

روحانی راہبر ،مرشد،امام اور امیر تک کا مقام: شیخ عثمان خود سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے لہذا انہوں نے تصوف اور روحانیت کے ذریعہ بھی لوگوں کو تزکیہ نفس کی ترغیب دے کر اچھی طرح تربیت کی ا س طرح اب وہ ایک انقلابی گروہ کے روحانی راہنما بھی بن گئے اور باقاعدہ "جماعت"بنالی۔ جس کے مرد پگڑی باندھتے اور خواتین حجاب کرتی تھیں جو کہ حکومت کے لیے ناپسندیدہ تھے لہذا "گابر" کے نئے حکمران "نفاتا"نے مایوسی کے عالم میں جماعت پرخوب مظالم ڈھانے شروع کر دئیے ۔اس کے علاو ہ جماعت کے افراد کی جائیدادیں ضبط کرنی شروع کر دیں اس سے جماعت کے لوگ زیادہ منظم ہونے شروع ہو گئے شیخ عثمان نے اپنے تمام افراد کو ہدایت کی چونکہ ہتھیار رکھنا ر رسول اکرم ﷺ کی سنت ہے لہذا تمام افراد کو فوجی لحاظ سے تیار کرنا شروع کردیا ۔اب حکومت نے جماعت پر دعوت وتبلیغ کی بھی پابندی لگا دی ۔اور پگڑی اور حجاب کا استعمال بھی ترک کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ۔اسکے علاوہ شیخ عثمان کو دوبارہ قتل کرنے کی بھی کوشش کی جوکہ ناکام ہوئی۔ حکمران "نفاتا" خود 1802میں فوت ہوگیا۔ اب نئے جانشین "ینفا"کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے واسطہ پڑگیا۔ شیخ عثمان نے 1803 ء میں چودہ نکاتی کتا بچہ" مسائل المہمہ" میں ظالم حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا کہا اور یہ بھی بتایا کہ اس کے لیے کسی امام کی بیعت ضروری ہے ۔ ہجرت اور جہاد کے مسائل کھل کر تحریر کر دئیے تاکہ جماعت کے افراد ہر قسم کے challengeکے لیے تیا ہوجائیں "ینفا" کے فوجیوں نے شیخ کے ہم خیال لوگوں کے گاؤں" گمبانہ "پر حملہ کر کے نہ صرف لوگوں کو لوٹا بلکہ مردوں اور عورتوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ جماعت کے باقی لوگوں کو قید کر کے صدر مقام "الکاوہ" لے جارہے تھے تو جماعت کے کچھ ساتھیوںٍ نے راستے میں حملہ کر کے قیدی رہا کرالیے اور مال و اسباب بھی واپس لے لیا"ینفا" نے طیش میں آکر شیخ عثمان کو ریاست بدر کا حکم جاری کردیا مگر جلد ہی اسکو واپس لینا پڑا ۔

ہجرت کا آغاز: اب شیخ عثمان نے ہجرت شروع کر دی اسی دوران شیخ نے اتما م حجت کے کے طور پر ایک کتاب "واثقات السوڈان "تحریر کی جس میں ہجرت کی دعوت دی اور خود پورے کتب خانے کے ساتھ 1804ء میں " دیجل " چھوڑ کر ریاست" گابر" کی آخری حدود واقع شہر" گیوڈو "روانہ ہوگئے۔ یہ مقام حربی نقطہ نظر سے بہت اہم تھا شیخ نے اپنے بیٹے محمدبیلو کو مرکزی مقامkebbiبھیجا انکے پیرو کار حکومت کی مزاحمت کے باوجودان مقامات پر اکیلے اور بعض خاندانوں سمیت پہنچنے میں کامیاب ہو گئے" گیوڈو " میں اجتماعی رائے سے شیخ عثمان کو "امیر "چن لیا گیا جوکہ بعد میں سکو ٹو خلافت بنانے میں کامیاب ہوئے ۔

جہاد: جماعت کووہاں پہنچے ابھی چند دن گزرے تھے کہ "ینفا"نے فوجی دستے بھیج کرا چانک بھر پور حملہ کیا جماعت کو مخبرنے پیشگی اطلاع دے دی تھی لہذاجماعت نے شہر کے گردخندق کھو درکھی تھی اس طرح جماعت نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور "ینفا"کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ریاست "زمفرا " کے حکمرانوں کے ساتھ شیخ عثمان کے پہلے سے بہتر مراسم تھے لہذا ریاست "زمفرا "والوں نے شیخ اورجماعت کو خوراک وغیرہ دے کر مدد کی ۔شیخ نے جماعت کے چودہ 14 قائدین کو علم )جھنڈا (دے کر جہاد کا اعلان کر دیا ۔ 1804ء میں "گابر "کے صدر مقام "الکاوہ "کی طرف پیش قدمی شروع کر دی راستے میں چھوٹے موٹے مقامات کے لوگ ان کے ساتھ بغیر لڑائی کیے ملتے گئے آخر کار حکومت کے فوجی دستوں کے ساتھ خوب معرکہ برپا ہوا جس میں جماعت کے چوٹی کے دو ہزار علما ء شہید ہوئے 1805ء کے شروع میں مجاہدین نے "الکاوہ" کا محاصرہ اٹھا لیا اور" زمفارا " ریاست کو بغیر لڑائی کے فتح کر لیا اسے کے بعد برنن، کیبی اور گومی کے حکمران بھی ساتھ مل گئے اکتوبر1805ء میں ریاست" کیبی "کے شہر" گوانڈو " کے باہر دوبار ہ مقابلہ ہوا اور" الو اسا" کے مقام پر فیصلہ کن لڑائی ہوئی ۔ مجاہدین کو فتح ہوئی مگر ان کے ایک ہزار ساتھی شہید ہوئے ۔مگر مجاہدین دشمن کو شکست دے کر اپنے آپ کو محفوظ کر چکے تھے شیخ عثمان نے 1806 ء میں جماعت کی قیادت کا "برنن گاڈا " میں اجلاس طلب کر کے اپنے بیٹے محمد بیلو کے ذریعہ اجلاس کو پیغام بھجوایا کہ ۔

" اللہ تعالی نے انہیں زمینی فتح عطا کی ہے تا ہم اگر انہوں نے "ہاسا لینڈ "کے حکمرانوں کی طرح حب دنیا میں عدل چھوڑ کر ظلم کی روش اختیار کی تو وہ انہیں اپنی دعاؤں میں شامل نہیں کر سکیں گے لہذا وہ حلف اٹھا ئیں کہ صحرا کے اسرائیلیوں کی طرح وہ اقتدار میں آکر بدل نہیں جائیں گے اور بدعنوانیوں کے مرتکب نہیں ہوں گے بلکہ وہ اپنے آپ کو دنیاوی خواہشات،حسد ،ظلم ،خانہ جنگی اور دولت کی ہوس سے بچائیں گے اور اس فساد کا حصہ نہیں بنیں گے جوانسان کو صبح مسلمان اور شام کو کافر بنا دیتا ہے "

اسلامی ریاست کا قیام: جہاد مسلسل جاری رہا مجاہدین کا فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتاگیا آخر کار 1810ء تک مجاہدین "ہا سالینڈ "کی شہری ریاستوں پر پچاس ہزارمربع میل پر قبضہ کر کے اسلامی ریاست قائم کر چکے تھے امیر المومنین شیخ عثمان انتظامی امور کو خیرباد کہہ کر وہ "سفاوا" کے قصبہ میں علمی کام میں مصروف ہو گئے اور اپنے بیٹے محمد بیلو اور اپنے بھائی عبدا للہی کو تمام ذمہ داریاں سونپ دیں جہاد میں کامیابی اور خلافت کے قیام پر کوئی جشن نہیں منایا بلکہ جماعت کے افراد نے اسلام کے مختلف احکامات کے عملی نفاذپرسوچ بچار شروع کر دی 
۔
اسلام کے نظام اجتماعی کا نفاذ :شیخ عثمان نے1804 ء میں اپنی ضخیم کتاب

"بیان وجوب الھجرۃ الاعباد" میں ہجرت ،امام کا تقرر اور اسکے فرائض ،جہاد اور اسکی فضیلت ،سیرت رسول، خلفائے راشدین ،گورنروں کی تقرری، مال غنیمت کی تقسیم وغیرہ پر63 ابواب پر مشتمل کتاب تحریر کی۔ 1810ء میں نئی قائم شدہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا مغربی حصہ کا سربراہ اپنے بھائی عہد اللہی کوبنا یا اس کا صدر مقام "گوانڈو" قرار پایا ۔ مشرقی حصہ کا انچارج اپنے بیٹے محمد بیلو کو بنایا اور سکوٹو کو اس کا صدر مقام بنایا اسی طرح صوبوں میں گورنر اور دیگرانتظامی حکام مقرر کیے ۔

یہ تمام افراد نہایت عادل اور اچھے منتظم تھے شیخ نے ایک کتاب "الفراق " میں حکومتی افراد کو حضرت ابو بکرصدیقؓ ،حضرت عمر فاروقؓ ،حضرت عثمان غنی،ؓ حضرت علیؓ کرم وجہ اللہ اور حضرت عمر بن عندالعزیز کی سیرت کا مطالعہ اور انکے طریقہ خلافت کی پیروی کرنے کا کہا ۔خود شیخ عثمان امیر المومنین تھے انکے دومشیران اپنا بھائی عبداللہی اور بیٹا محمد بیلو تھے باقی سارے امور صوبے سے لے کر ضلع تحصیل اور گاؤں تک تقسیم کر دیے اور تمام عہدوں پر متعین افراد کو سادہ زندگی گزارنے کے ساتھ عدل وانصاف اور تقوی کی تلقین کی اور ہر شے اپنی کتابوں میں تحریر کر کے دے دی ۔خدا خوفی ، انکساری اور دیانت حکومت کے بنیادی اوصاف قرار پائے عوام پر نہایت جائز ٹیکس لگا کر تمام آمدنی بیت المال کا حصہ قرار پائی۔

شیخ عثمان کا انتقال :شیخ عثمان کا انتقال 1817ء میں ہوا، انتقال سے قبل وہ ریاست کی بنیاد اسلامی خطوط پر استوار کر چکے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اداروں کو مستحکم کیا بلکہ ریاست کی حدود وسیع کرنے کے علاوہ منظم اور پیشہ ور فوج قائم کی اسی طرح زراعت ،تجارت اور مدنیت میں ترقی ہوئی ۔تعلیم اور عورتوں کے حقوق کی طرف بہت توجہ دی یہ سب کچھ قیادت کی علمیت ،اہلیت ،دیانت اور خلوص نے نا ممکن کوممکن بنایا۔

کامیابی کی وجوہات :پانچ عوامل نے تحریک جہاد کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ۔

:1 اعلی پایہ کا وسیع نظام تعلیم

2:عدل وانصاف کا قیام

3.رسم ورواج سے خواتین کی نجات اور انکی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ

4: اعلی اخلاق وکردار کی حامل جماعت کی تیاری

5:روایت اور تبدیلی میں اعتدال وتوازن

تجزیہ اور تاثرات: شیخ عثمان نے خود بیس سال اعلی تعلیم حاصل کی اور پھر سینکڑوں کتابیں لکھ کر عملی دعوت وتبلیغ کے ذریعے لوگوں کی تعلیم وتربیت کی ان کا بیٹا اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میں نے بیس ہزار کے لگ بھگ کتب کا مطالعہ کیا گویا شیخ عثمان نے لوگو ں میں تعلیمی شوق کو ابھار کر عمل میں بدل دیا۔
مگر قرآن وحدیث اور اسلامی اقدار سے ذرہ بھر بھی انحراف نہ کیا ۔" اللہ تعالی خلوص ،محنت اور دیانت کو کبھی رائیگا ں نہیں جانے دیتا " شیخ عثمان نے اپنی بیوی عائشہ اور بیٹی اسماؤ کی بھی ایسی تربیت کی کہ انھو ں نے عورتوں کی تعلیم میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ بیٹی اسماؤ نے 47 کے لگ بھگ نظم ونثر میں کتابیں لکھیں اور خواتین کی ایک علیحدہ شا خ بھی قائم کی ۔

شیخ عثمان خودزاہدا نہ زندگی گزارنے کے علاوہ وہ ایک ایسے گلہ بان تھے جواپنے گلہ کے بارے میں اس وقت تک پریشان رہتے تھے جب تک اسکے ہر نمائندہ کو اچھی خوراک نہ مل جائے۔ شیخ عثمان نے تبدیلی کا تدریجی انداز اختیار کیا لہذا آپ کو اللہ تعالی نے کامیابی عطا کی۔ تحریک کے دوران جس کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اسکا بھی ازالہ کیا اور عدل وانصاف کی جدید دنیامیں مثال قائم کر دی اور یہ سب کچھ قلب وذ ہن کو بدلے بغیر ناممکن ہے جس کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے شیخ عثمان اور اسکے ساتھیوں نے کم وبیش 30سال کی لگاتار محنت اور تگ ودو سے سب کچھ حاصل کیا اور خلافت کا نظام قائم کر کے جدید دنیا میں ایک مثال قائم کر دی۔

سکوٹو خلافت کا ورثہ ۔سکوٹو خلافت 1810ء سے1900ء تک کامیابی کے ساتھ تقریبا 90سال قائم رہی 1903ء میں انگریز فوج نے اس علاقہ کو فتح کر کے رسم الحظ بدل کراس کے افراد کو ناخواندہ بنانے میں اہم کردار انجام دیا۔ اپنے اداروں اور عیسائیت کی تبلیغ کے ذریعہ انگریزی قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس ریاست کو واپس 1776ء کے عہد میں دھکیل دیا۔ البتہ لوگوں نے انفرادی واجتماعی کوشش کر کے 1960ء میں پھر ریاست کو آزاد کر لیا۔
شیخ عثمان کی تعلیمات کا ابھی تک اتنا اثر ہے کہ یہاں 20 سے45سال کی عمر تک ایک لاکھ سے زیادہ علماء موجود ہیں جس میں نائجیر یا کے آئین کے ذریعہ شریعت کے نفاذکا دوبارہ احیاء کرنے کا جذبہ موجود ہے مگر شاید اسکے لیے شیخ عثمان جیسی قیادت اور علمیت کی اشد ضرورت ہے جبکہ ایسے افرادصدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔

حوالہ:احیائے دین کا مقدمہ ازسردار عالم خان ،الفیصل ناشران ،لاہور،1907ء

تلخیص:پروفیسر عاشق حسین،راولپنڈی
0333-5267152

Facebook Followers