Thursday, 29 November 2012

حضرت محمدﷺ کی تین پیش گوئیاں اور عدی بن حاتم طائی کے ایمان لانے  کا واقعہ
(ایکسپریس سے محمود اصغر غضنفر کی خوبصورت تحریر)
                  
حاتم طائی (جس کو سخاوت میں ضرب المثل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے) کی وفات کے بعد ان کے قبیلے کی سلطنت کی ذمہ داری ان کے بیٹے جناب عدی کو سونپ دی گئی اور پورے قبیلے نے اپنی آمدنی کا چوتھائی حصہ ان کے مخصوص کر دیا اور ان کے حکمران بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔
جب رسول اکرم ﷺ نے اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت پیش کی اور عرب جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو یہ صورت حال دیکھ کر جناب عدی نے خطرہ محسوس کیا کہ اگر عام لوگ اسی طرح آپﷺ کی دعوت سے متاثر ہوتے رہے تو بالآخر ہماری سلطنت بھی جاتی رہے گی اس لیے انھوں نے اسلام کی اشاعت روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا اور آپ ﷺ سے بغض و عناد کی انتہا کر دی۔آپ ﷺ سے عداوت کا یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا۔ جناب عدیؓ فرماتے ہیں:
جب میں نے رسول اکرمﷺ کے متعلق سنا تو میرے دل میں اس قدر نفرت پیدا ہوئی کہ شاید ہی کسی عرب باشندے کے دل میں اس جیسی نفرت پیدا ہوئی ہو ۔ میں اپنے علاقے اور قوم کا ایک باوقار اور معزز فرد تھا اور عقیدتاً نصرانی تھا اور دوسرے عرب بادشاہوں کی طرح میں اپنی رعایا سے ان کے مال کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتا تھا۔پہلے مرحلے پر تو میں نے نفرت اور حقارت کی بنا پر کوئی پروا نہیں کی لیکن جب رسول اکرم ﷺ کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا اور آپ ﷺ کے لشکر کو سرزمین عرب میں چہار سو فتوحات حاصل ہونے لگیں تو پھر میں نے اپنے دل میں خطرہ محسوس کیا اور اونٹ چرَانے والے اپنے غلام سے کہا کہ آج کے بعد چاق و چوبند اور طاقت ور اونٹنیاں ہر دم میرے لیے تیار رکھو، اور وہ ایسی سدھائی ہوئی ہوں کہ سفر میںکوئی تکلیف محسوس نہ ہو اور جوں ہی یہ خبر سنو کہ حضرت محمد ﷺ کے لشکر نے سرزمین نجد پر یلغار کر دی ہے فوراً مجھے اطلاع دینا۔
ایک دن صبح سویرے میرا یہی غلام دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’اے میرے آقا! اگر لشکر اسلام آپ کے علاقے پر یلغار کر دے تو پھر آپ کیا کریں گے؟‘‘ میں نے گھبراہٹ میں اس سے دریافت کیا ، ’’کیا بات ہے؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’آج میں نے گھروں میں جھنڈے لہراتے دیکھے ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آج لشکر اسلام نے ہمارے علاقے پر یلغار کر دی ہے اور متعدد گھروں پر قبضہ کر لیا ہے۔‘‘ میں نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسے کہا کہ جلدی سے وہ اونٹنیاں میرے پاس لائو جن کے تیار رکھنے کا میں نے تمھیں حکم دیا تھا اسی وقت وہ اونٹنیاں میرے پاس لائی گئیں اور میں اپنے اہل خانہ کو ان پر سوار کرکے ملک شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اپنے ہم مذہب نصرانیت کے علمبردار لوگوں کے پاس سکونت اختیار کر سکوں۔
ہوا یہ کہ میں اس جلد بازی اور گھبراہٹ میں اپنے تمام خاندان کو اس سفر میں ہمراہ نہ لے جا سکا لیکن جب میں خطرناک اور کٹھن راستوں سے گزرا تو بعض افراد راستے میں ہی ہلاک ہوگئے اور اس افراتفری میں میری ہمشیرہ نجد ہی میں رہ گئیں اس کو اپنے ساتھ نہ لاسکا جس کا مجھے بہت زیادہ دلی صدمہ تھا لیکن اب میرے لیے واپس لوٹنے کی بھی کوئی صورت نہ تھی ۔ اسی غم میں غلطاں و پریشاں کٹھن راستوں سے گزرتا ہوا ملک شام پہنچ گیا اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرلی یہاں نصرانیت کا غلبہ دیکھ کہ مجھے دلی مسرت حاصل ہوئی لیکن اپنی ہمشیرہ کی جدائی اور اسے پیش آنے والے خطرات کا صدمہ مسلسل دامن گیر رہا۔
مجھے یہ اطلاع ملی کہ میرے وہاں سے کوچ کر آنے کے بعد لشکر اسلام نے ہمارے گھروں پر حملہ کیا اور وہ پورے علاقے کو فتح کرنے کے بعد میری بہن کو دیگر قیدیوں کے ساتھ گرفتار کرکے یثرب لے گئے ہیں اور انھیں مسجد کے ایک دروازے کے ساتھ ملحقہ حوالات میں بند کر دیا گیا ہے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ ایک روز میری بہن کے پاس سے گزرے تو میری بہن پکارا اٹھی یا رسول اﷲ! میرا باپ فوت ہوچکا ہے اور میرا نگران آنکھوں سے اوجھل ہے مجھ بے چاری پر احسان کیجئے اﷲ آپ پر احسان کرے گا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا تیرا نگران کون ہے اس نے بتایا کہ میرا بھائی عدی بن حاتم طائی آپ نے فرمایا وہ جو اﷲ و رسول سے راہ فرار اختیار کر چکا ہے پھر آپ چل دیئے اور میری بہن کو اسی حالت میں رہنے دیا۔
جب دوسرا دن ہوا اور رسول اکرمﷺ کا گزر میری بہن کی جانب سے ہوا تو اس نے چھٹکارے کے لیے دوبارہ اپنی معروضات پیش کیں تو آپﷺ نے اسے حسب سابق جواب دیا، جب تیسرے دن آپﷺ کا وہاں سے گزرا تو میری بہن مایوسی کی وجہ سے خاموش تھی تو پیچھے سے ایک شخص نے اشارہ کیا آج رحمت دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنی معروضات پیش کرو چنانچہ میری بہن کو حوصلہ ہوا اور اٹھ کر یہ عرض پیش کی یا رسول اﷲ والد فوت ہوگیا ہے اور نگران آنکھوں سے اوجھل ہے مجھ پر احسان کریں اﷲ آپ پر احسان کرے گا۔ آپﷺ نے فرمایا آج سے تو آزاد ہے تو اس نے عرض کیا میں سرزمین شام میں مقیم اپنے خاندان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جلد بازی سے کام نہ لے جب تک تجھے اپنی قوم کا ایسا کوئی قابل اعتماد شخص نہ ملے جو تجھے ملک شام تک حفاظت سے پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرے اس وقت تک یہ سفر اختیار نہ کرنا اور جب کوئی ایسا شخص مل جائے تو مجھے بتانا۔‘‘
اس کے بعد ہمیں وقتاً فوقتاً ہمشیرہ کے متعلق مختلف خبریں پہنچتی رہیں اور ہم شدت سے اس کی آمد کا انتظار کرنے لگے لیکن ہمیں رسول اقدس ﷺ کی جانب سے ہمشیرہ کے ساتھ حسن سلوک کی جو خبریں پہنچ رہی تھیں دل اسے تسلیم نہیں کرتا تھا کیوں کہ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں آپﷺ کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا ۔ ایک روز میں اپنے اہل خانہ میں بیٹھا تھا اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت اونٹنی پر بیٹھی آہستہ آہستہ ہماری طرف آرہی ہے اسے دیکھ کر میں پکار اٹھا یہ تو حاتم کی بیٹی معلوم ہوتی ہے اور وہ حقیقت میں بھی وہی تھی۔ اور جب وہ ہمارے پاس پہنچی تو غصے سے مجھ پر برس پڑی اور مجھے بے پروا، ظالم اور بے وفا قرار دیتے ہوئے کہنے لگی کیا تجھے شرم نہ آئی کہ اپنے بیوی بچوں کو تو ساتھ لے آیا اور اپنے باپ کی آبرو اور اپنی عزت کو وہیں چھوڑ آیا تیرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔
میں نے کہا بہن ناراض نہ ہوں اپنی زبان سے خیر کے کلمات نکالیں۔ بیٹھیں کچھ آرام کرلیں، آپ تھکی ہوئی ہیں۔ میں مسلسل اسے نرم لہجے میں راضی کرنے کے لیے کوشاں رہا بالآخر وہ راضی ہوگئی اور پھر اس نے اپنی پوری داستان مجھے سنائی یہ واقعات بالکل اس کے مطابق جو مختلف ذرائع سے مجھے معلوم ہوچکے تھے۔ وہ بڑی دانش مند زیرک اور محتاط عورت تھی میں نے اس سے رسول اﷲ ﷺ کے بارے میں اس کی رائے معلوم کی تو اس نے مجھے کہا ’’بھائی جان فوراً ان سے ملاقات کریں اگر وہ نبی ہیں تو یقیناً ملاقات میں سبقت کرنے پر تمھیں درجہ ملے گا اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو بھی ان کے دربار میں تمھیں رسوا نہیں کیا جائے گا۔‘‘
جناب عدی کہتے ہیں کہ میں نے رخت سفر باندھا اور رسول اکرمﷺ سے ملاقات کے لیے بغیر کوئی ضمانت حاصل کئے مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا البتہ مجھے یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ رسول اﷲ ﷺ کی دلی خواہش ہے کہ میں کسی طرح آپﷺ کے زیر اثر آجاؤں میں آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، میں نے سلام کیا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کی، عدی بن حاتم، آپ ﷺ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کی طرف چل دیئے اور اس دوران میں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا کہ ایک کمزور اور لاچار بڑھیا نے آپ ﷺ کا راستہ روک لیا ، اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا اس نے اپنی کوئی ضرورت آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی جسے آپ نے اسی وقت پورا کر دیا میں نے اپنے دل میں کہا خدا کی قسم یہ بادشاہ نہیں ہیں پھر آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور آگے چل دیئے۔
یہاں تک کہ ہم گھر پہنچ گئے آپﷺ نے ایک تکیہ مجھے دیا کہ اس پر بیٹھ جاؤں میں شرمایا اور عرض کیا حضور آپ ہی تشریف رکھیں لیکن آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ تم کو ہی بیٹھنا ہوگا لہٰذا میں آپﷺ کا حکم مانتے ہوئے اس پر بیٹھ گیا اور خود نبی اکرم ﷺ زمین پر بیٹھ گئے کیوں کہ گھر میں اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہ تھی۔ میں نے اپنے دل میں کہا خدا کی قسم یہ کسی بادشاہ کی عادت نہیں ہوسکتی پھر آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم نصرانیت اور لادینیت کے درمیان تذبذب کا شکار نہیں؟ میں نے عرض کیا بالکل آپ کا ارشاد درست ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کیا تم اپنی قوم کے مال و دولت میں سے چوتھائی حصہ نہیں لیتے جو کہ خود تمھارے دین کی روشنی میں تمھارے لیے حلال نہیں ہے۔ میں نے کہا بالکل درست فرمایا آپ نے ، اور اب مجھے اس بات کا یقین حاصل ہوگیا کہ آپ ﷺ اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
پھر آپﷺ مجھے مخاطب ہوئے اور ارشاد فرمایا : اے عدی شاید تمھیں دین اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی موجودہ حالت زار اور غربت و مفلسی روک رہی ہے خدا کی قسم عنقریب ایک دن ایسا آئے گا کہ مسلمانوں میں مال اتنا وافر ہوجائے گا کہ کوئی شخص تمھیں صدقہ قبول کرنے والا نہیں ملے گا ۔ اے عدی شاید تمھیں اس دین کو قبول کرنے سے مسلمانوں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کا احساس روک رہا ہے۔ خدا کی قسم تم عنقریب سنو گے کہ پورے خطہ عرب میں اسلامی پرچم لہرائے گا اور ہر سُو امن کا ایسا ماحول ہوگا کہ ایک عورت تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے روانہ ہوگی اور بے خطر سفر کرتی ہوئی مدینہ منورہ پہنچے گی۔ دوران سفر اﷲ تعالیٰ کے سوا اس کے دل میں کسی کا ڈر نہ ہوگا۔
اے عدی! شاید تجھے اس دن کو قبول کرنے سے یہ احساس روک رہا ہو کہ آج حکومت و سلطنت غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے خدا کی قسم تم عنقریب یہ خبر سنو گے کہ سرزمین بابل کے سفید محلات کو مسلمانوں نے فتح کر لیا ہے اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں مسلمان کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں پر قابض ہوجائیں گے جناب عدی فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میں بہت زیادہ متاثر ہوا اور کلمۂ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
حضرت عدی ؓ نے طویل عمر پائی آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دو نشانیاں تو پوری ہوچکی ہیں تیسری ابھی باقی ہے خدا کی قسم وہ بھی پوری ہو کر رہے گی ۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ ایک عورت تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے چلی اور بلاخوف و خطر سفر کرتی ہوئی مدینہ طیبہ تک پہنچ گئی اور میں اس لشکر میں بذات خود موجود تھا جس نے کسریٰ کے خزانوں کو اپنے قبضے میں لیا اور حلفیہ طور پر کہتا ہوں کہ تیسری نشانی بھی یقیناً پوری ہو کر رہے گی ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو سچا کر دکھایا اور تیسری نشانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی مسلمانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگئی تھی کہ زکوۃ لینے والا کوئی محتاج و مفلس نہیں ملتا تھا ۔ بلاشبہ رسول اقدسﷺ نے سچ فرمایا اور جناب عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ کی قسم بھی پوری ہوگئی۔

Monday, 12 November 2012


ساتھ چلو یا گُم ہوجاؤ
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت اتوار 11 نومبر 
کچھ تو حقائق ہوتے ہیں اور کچھ تصورات ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں اور کئی نسلیں اور بہت سا وقت گذرنے کے بعد ایک دن ہمیں اچانک جھٹکا لگتا ہے کہ جسے ہم حقیقت سمجھ کر قبول کرتے رہے وہ تو محض ایک فسانہ ہے۔
جیسے جب گلیلیو نے اعلان کیا کہ دنیا گول ہے تو پوپ اور اس کے حواری ہل کے رہ گئے جنہیں ڈیڑھ ہزار برس سے یہی معلوم تھا کہ دنیا چپٹی ہے۔گلیلیو قید خانے میں ڈال دیا گیا لیکن دنیا دوبارہ چپٹی نہ ہوسکی۔
ور پھر کوپر نیکس کی اس خبر نے تو فکری زلزلہ برپا کردیا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں بلکہ ایک سیارہ ہے اور سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔
پھر ڈارون نے تو یہ اعلان کرکے انسانی نخوت کی پوری عمارت ہی اڑا دی کہ انسان کہیں الگ سے اور اچانک نمودار نہیں ہوا بلکہ حیوانی ارتقائی زنجیر کی ہی ایک ترقی یافتہ کڑی ہے۔
گو یہ ساڑھے تین ہزار سالہ یونانی تصور تو فکری سطح پر تیرہ سو برس پہلے ہی رسول اللہ نے پاش پاش کردیا تھا کہ نسلی برتری بھی کوئی شے ہوتی ہے یا گورے کو کالے پر فوقیت حاصل ہے۔ مگر سائنسی لحاظ سے بھی یہ بات بیسویں صدی میں طے ہوگئی کہ رنگ کی بنیاد پر خود کو اعلی اور دوسرے کو گھٹیا سمجھنا ایک پست درجے کی بے وقوفی ہے۔ کیونکہ تمام انسان ایک ہی طرح کے جینز لے کر پیدا ہوتے ہیں اور کھال کے رنگ کا فرق کسی ایک انسانی جینز میں محض اعشاریہ صفر صفر صفر نو کےفرق کے سبب ہے۔
لیکن کسی تصور کا سائنسی و فکری سطح پر ردّ ہونا اور انسانی ذہن کا اس تصور سے چھٹکارا پانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ تصور تو ایک منٹ میں مسترد ہوجاتا ہے لیکن اس سے انسان کی جان چھوٹنے میں بہت عرصہ لگ جاتا ہے۔
جیسے افغانیوں سے انیسویں صدی میں جوتے کھانے کے باوجود برطانیہ میں، جاپانیوں سے انیس سو پانچ میں ہارنے کے باوجود روس میں، دوسری عالمی جنگ میں آریائی برتری کا ہٹلری بت ٹوٹنے کے باوجود جرمنی میں، بنگالیوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کے باوجود پاکستان میں، ویتنامیوں سے پِٹنے کے باوجود امریکہ میں آج بھی کوئی نا کوئی شخص، گروہ یا ادارہ نسلی و مذہبی تفاخر اور جنگجو نسل ہونے کے نشے میں لڑکھڑاتا رہتا ہے۔
اگرچہ پچھلے تین سو برس میں یہ بات درجنوں بار طے ہو ہو کر کئی کئی شکلوں میں ثابت ہوچکی ہے کہ اگر کسی فرد یا قوم کو ترقی کرنی ہے تو پھر جذباتیت، اسلافی تفاخر، جھوٹی انا، کھوکھلے نظریاتی دعووں اور دنیا کو فتح کرنے کے نشے سے چھٹکارا پا کر عقل کی بنیاد پر پُرامن بقائے باہمی کے فلسفے کے تحت تعلیم و تربیت پر پورے وسائل لگاتے ہوئی ذہن کو توہمات کے قید خانے سے نکال کر مکمل تخلیقی آزادی دینی پڑے گی۔
پھر بھی شوقِ جہالت ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پھر بھی اپنے اپنے کنوئیں سے باہر دیکھنے کی یوں ہمت نہیں پڑ رہی کہ اندھیرے کی عادی آنکھیں ترقی کے سورج سے کہیں چندھیا نہ جائیں۔ پھر بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور اسے قابلِ عمل تصورات کی سوئی سے سینے کا حوصلہ نہیں پیدا ہو رہا۔ ڈر ہے کہ اگر بوسیدہ خیالات کی یہ پوشاک بھی پھٹ گئی تو چھپانے کو کیا رہ جائے گا۔
بری خبر یہ ہے کہ اس گلا کاٹ دنیا کو خود ترسی کے مرض میں مبتلا لوگوں اور معاشروں سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی یعنی یا تو ساتھ چلو، یا پھر گمنامی کی دھول میں گم ہوجاؤ۔ فل سٹاپ۔۔۔
Get free News on ur Mobile  Type "Follow<space>MoeenWattoo " and send 40404 (For Pak and USA) try it .

Wednesday, 7 November 2012









Mulala’s Diary Last Part (Part-10)
مُلالہ یوسف زئی کی ڈائری  (دسویں اور آخری قسط)
سوات میں طالبان نے پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگادی تھی مگر صوبائی حکومت اور کالعدم تحریکِ نفاذ شریعت محمدی کے درمیان ہونے والے ’امن معاہدے‘ کے بعد طالبان نے اپنا یہ فیصلہ صرف امتحانات کے انعقاد تک جزوی طور پر واپس لے لیا ہے۔ مقامی طالبات کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی غیر یقینی کی صورتحال سے گزر رہی ہیں۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام سوات سے تعلق رکھنے والی ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھ رہی ہیں۔ اس سلسلے کی دسویں کڑی:
پیر، نو مارچ:’طالبان اب گاڑیوں کی تلاشی نہیں لیتے
آج سے ہمارے امتحانات شروع ہو رہے ہیں لہذا اٹھتے ہی بہت پریشان تھی۔ امی اور ابو ہمارے کسی رشتہ دار کی فاتحہ خوانی کے لیے گاؤں گئے ہوئے ہیں اس لیے آج میں نے خود ہی چھوٹے بھائیوں کے لیے ناشتہ تیار کیا۔
میرا سائنس کا پیپر بہت اچھا ہوا۔ دس سوالوں میں سے آٹھ کرنے تھے مگر مجھے دس کے دس یاد تھے۔ جب گھر واپس آئی تو امی ابو کو گھر میں پاکر بہت خوش ہوئی۔ امی نے بتایا کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقے سے ہوکرگاؤں گئے تھے۔ وہاں طالبان مسلح نظر آ تو رہے تھے لیکن وہ پہلے کی طرح گاڑیوں کی تلاشی نہیں لے رہے تھے۔
منگل، دس مارچ: ’مولانا شاہ دوران گاؤں واپس آگئے
آج جب میں سکول سے واپس آرہی تھی تو میری ایک سہیلی نے مجھ سے کہا کہ سر اچھی طرح ڈھانپ کر جاؤں نہیں تو طالبان سزاد دے دیں گے۔ آج بھی مینگورہ کے قریب قمبر کے علاقے میں سکیورٹی فورسز پر فائرنگ ہوئی ہے۔
طالبان کے ایف ایم چینل پر تقریر کرنے والے مولانا شاہ دوران بھی آج اپنے گاؤں قمبر واپس آگئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہاں کے طالبان نے ان کا استقبال کیا۔ طالبان نے اب بھی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ نماز یں پڑھا کریں اور خواتین پردے کا خاص خیال رکھیں
بدھ، گیارہ مارچ: ’بہت عرصے بعد گانے سنے
آج کا پیپر بھی اچھا ہوا اور خوش ہوں کہ کل چھٹی ہے۔آج میں نے اور دو چھوٹے بھائیوں نے چوزے خریدے مگر میرے چوزے کو سردی لگ گئی ہے اور بیمار ہوگیا۔ امی نے اس سے گرم کپڑے میں رکھ دیا ہے۔
آج بازار بھی گئی جہاں بہت زیادہ رش تھا۔ کہیں کہیں پر ٹریفک بھی جام تھی۔ پہلے رات ہوتے ہی بازار بند ہوجاتا لیکن اب رات دیر تک کھلا رہتا ہے۔
آج میں نے ریڈیو آن کیا تو حیرت ہوئی کہ ایک خاتون پروگرام کررہی تھی اور لوگ فون کر کے اپنی پسند کےگانے کی فرمائش کر رہے تھے۔ ابو نے بتایا کہ یہ حکومت کا چینل ہے۔ بہت عرصے بعد میں نے ریڈیو پر پشتو کے گانے سنے۔ دور دراز سے لوگ فون کرتے ہیں ایک لڑکے نے تو بلوچستان سے فون کیا۔
جمعرات، بارہ مارچ: ’جنت میں حوریں انیس کا انتظار کر رہی ہیں
میرا دو دنوں سے گلا خراب ہے لہذا ابو مجھے آج ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ وہاں ویٹنگ روم میں دو خواتین بھی بیٹھی ہوئی تھیں اور دونوں کا تعلق قمبر کے علاقے سے تھا۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ ان کے علاقے میں اب بھی طالبان کا کنٹرول ہے۔ انہوں نے بعض لوگوں کو سزائیں بھی دی ہیں۔ خاتون نے اپنے محلے کے ایک لڑکے کا واقعہ بھی سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے محلے میں ایک لڑکا ہے جس کا نام انیس ہے۔
وہ طالبان کا ساتھی تھا۔ ایک دن اس کے طالبان ساتھی نے اسے بتایا کہ اس نے ایک خواب دیکھا ہے جس میں جنت کی حوروں نے اس سے کہا کہ 'ہمیں انیس کا انتظار ہے‘۔
خاتون نے بتایا کہ یہ بات سن کر انیس بہت خوش ہوا اور اپنے والدین کے پاس گیا اور کہا کہ حوریں ان کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ 'خودکش حملہ‘ کر کے 'شہید‘ ہونا چاہتا ہے۔ ماں باپ نے ان کو اجازت نہیں دی تو اس نے کہا کہ وہ افغانستان جا کر جہاد کرنا چاہتا ہے۔
خاتون کے بقول گھر والوں نے لڑکے کو اجازت نہیں دی مگر لڑکا گھر سے بھاگ گیااور کل ڈیڑھ سال بعد سوات کے طالبان نے ان کے گھر والوں کو بتایا کہ انیس سوات میں سکیورٹی فورسز پر خودکش حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔
Get News Alerts on your Mobile Write “Follow<space>MoeenWattoo” and send to “40404”. (For Pakistan only)

Tuesday, 6 November 2012


Mulal’s  Diary  Part-9
مُلالہ  یوسف زئی کی ڈائری (نویں قسط)
بی بی سی اردو ڈاٹ کام سوات سے تعلق رکھنے والی ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھ رہی ہیں۔ اس سلسلے کی نویں کڑی:
جمعہ ستائیس فروری: ’اپنے گاؤں کی یاد آرہی ہے

آج سکول گئی تو اپنی دو سہیلیوں کو دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ آپریشن کے دوران دونوں راولپنڈی چلی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی میں امن بھی تھا اور زندگی کی دیگر سہولیات بھی اچھی تھیں مگر ہم انتظار کررہے تھے کہ کب سوات میں امن آئے گا اور سکول کھلیں گے تاکہ ہم واپس چلے جائیں۔
آج ہماری ایک ٹیچر موٹر وے کے بارے میں سبق پڑھا رہی تھیں اور وہ مثال دینے کے لیے سوات کے چہار باغ کے علاقے کا نام بار بار لیتی رہیں۔ میں نے پوچھا میڈم آپ بار بار کیوں چہار باغ کی مثال دے رہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں چہار باغ میں رہتی تھی وہاں گھر پر مارٹر گولے لگے تو ہم مینگورہ منتقل ہوگئے۔ اب اپنے چہار باغ کی بہت یاد آرہی ہے اس لیے میری زبان پر اس کا نام آجاتا ہے۔ ہمارے محلے سے بھی لوگوں نے نقل مکانی کی تھی اور آج ایک پڑوسی گھر واپس آگئے۔
پیر دو مارچ: ’دن کو مزدور اور رات کو طالب بن جاتا ہے

ہماری کلاس میں لڑکیوں کی تعداد اب رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ آج ستائیس میں سے انیس لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ نو مارچ سے امتحانات شروع ہو رہے ہیں اس لیے ہم زیادہ وقت پڑھنے میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج خواتین کے ساتھ چینہ مارکیٹ گئی تھی اور وہاں میں نے خوب شاپنگ کی کیونکہ وہاں ایک دوکاندار اپنی دوکان ختم کر رہا ہے۔ وہ کم قیمت پر چیزیں بیچ رہا ہے۔ چینہ مارکیٹ میں زیادہ تر دوکانیں اب بند ہوگئی ہیں۔
آج کل مارٹر گولوں کی آوازیں بھی ختم ہوگئی ہیں لہٰذا رات کو اچھی طرح سے سو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ طالبان اب بھی اپنے علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ وہ بےگھر ہونے والے افراد کے لیے آنے والا امدادی سامان بھی لوٹ لیتے ہیں۔
میری ایک سہیلی نے کہا کہ اس کے بھائی نے اپنے ایک جاننے والے کو ایک رات طالبان کے ساتھ گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا تو حیران ہوا۔ ان کے بھائی کا کہنا تھا کہ یہ لڑکا صبح کو مزدوری کرتا ہے اور رات کو طالبان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے کہا میں نے ان سے پوچھا کہ میں تو تمہیں جانتا ہوں تم تو طالب نہیں ہو پھر ایسا کیوں کررہے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ صبح کو مزدوری کرکے کماتا ہوں اور رات کو طالبان کے ساتھ ہوتا ہوں تو اچھا خاصا خرچہ نکل آتا ہے اور گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں بھی مل جاتی ہیں۔
منگل تین مارچ: ’امن معاہدہ دراصل جنگ کے درمیان کا وقفہ ہے

میرے چھوٹے بھائی کو سکول جانا پسند نہیں ہے۔ وہ صبح سکول جاتے وقت روتا ہے اور واپسی پر ہنستا ہے۔ لیکن آج روتے ہوئے واپس آیا تو امی نے رونے کی وجہ پوچھی۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے سکول سے آتے وقت ڈر لگ رہا تھا۔ جب بھی کوئی شخص نظرآتا تو میں ڈر جاتا کہ کہیں وہ مجھے اغواء نہ کرلے۔
میرا یہ چھوٹا بھائی اکثر دعا کرتا ہے کہ ’اے اللہ سوات میں امن لے آنا اگر نہیں آتا تو پھر امریکہ یا چین کو یہاں لے آنا‘۔
سوات میں آج پھر طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی ہوئی ہے۔ کچھ دنوں سے ایسے واقعات ہورہے ہیں۔ آج میں نے کئی دنوں کے بعد پہلی مرتبہ مارٹر گولوں کی آوازیں سنیں۔ لوگوں میں پھر امن معاہدے کے ٹوٹنے کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’دراصل امن معاہدہ مستقل نہیں بلکہ یہ جنگ کے درمیان کا وقفہ ہے‘۔
بدھ چار مارچ: ’طالبان ایف ایم بند ہوگا تو امن آئے گا

آج کلاس میں استانی نے پوچھا کہ تم میں سے کون کون طالبان کا ایف ایم چینل سنتا ہے تو زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ اب سننا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن کچھ لڑکیاں اب بھی سن رہی ہیں۔ لڑکیوں کا خیال تھا کہ جب تک ایف ایم چینل بند نہیں ہوتا تب تک امن نہیں آسکتا۔
طالبان کہتے ہیں کہ وہ ایف ایم چینل کو درسِ قرآن کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن کمانڈر خلیل ابتداء میں کچھ دیر کے لیے درس قرآن دینا شروع کردیتے ہیں مگر پھر آہستہ سے موضوع بدل کر اپنے مخالفین کو دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ جنگ، تشدد اور قتل کے سبھی اعلانات ایف ایم سے ہوتے ہیں۔
آج ہم جب ریسس کے دوران کلاس سے باہر نکلے تو فضاء میں ہیلی کاپٹر نظر آیا۔ جہاں ہمارا سکول واقع ہے وہاں پر ہیلی کاپٹر کی پرواز بہت نیچی ہوتی ہے۔ لڑکیوں نے فوجیوں کو آوازیں دیں اور وہ بھی جواب میں ہاتھ ہلاتے رہے۔ فوجی اب ہاتھ ہلاتے ہوئے تھکے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں کیونکہ یہ سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے جاری ہے۔ (جاری ہے۔۔۔)
 Get News Alerts on your mobile type "Follow MoeenWattoo" and send to 40404  
(for Pakistan only)

Facebook Followers