Tuesday, 6 November 2012


Mulal’s  Diary  Part-9
مُلالہ  یوسف زئی کی ڈائری (نویں قسط)
بی بی سی اردو ڈاٹ کام سوات سے تعلق رکھنے والی ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھ رہی ہیں۔ اس سلسلے کی نویں کڑی:
جمعہ ستائیس فروری: ’اپنے گاؤں کی یاد آرہی ہے

آج سکول گئی تو اپنی دو سہیلیوں کو دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ آپریشن کے دوران دونوں راولپنڈی چلی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی میں امن بھی تھا اور زندگی کی دیگر سہولیات بھی اچھی تھیں مگر ہم انتظار کررہے تھے کہ کب سوات میں امن آئے گا اور سکول کھلیں گے تاکہ ہم واپس چلے جائیں۔
آج ہماری ایک ٹیچر موٹر وے کے بارے میں سبق پڑھا رہی تھیں اور وہ مثال دینے کے لیے سوات کے چہار باغ کے علاقے کا نام بار بار لیتی رہیں۔ میں نے پوچھا میڈم آپ بار بار کیوں چہار باغ کی مثال دے رہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں چہار باغ میں رہتی تھی وہاں گھر پر مارٹر گولے لگے تو ہم مینگورہ منتقل ہوگئے۔ اب اپنے چہار باغ کی بہت یاد آرہی ہے اس لیے میری زبان پر اس کا نام آجاتا ہے۔ ہمارے محلے سے بھی لوگوں نے نقل مکانی کی تھی اور آج ایک پڑوسی گھر واپس آگئے۔
پیر دو مارچ: ’دن کو مزدور اور رات کو طالب بن جاتا ہے

ہماری کلاس میں لڑکیوں کی تعداد اب رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ آج ستائیس میں سے انیس لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ نو مارچ سے امتحانات شروع ہو رہے ہیں اس لیے ہم زیادہ وقت پڑھنے میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج خواتین کے ساتھ چینہ مارکیٹ گئی تھی اور وہاں میں نے خوب شاپنگ کی کیونکہ وہاں ایک دوکاندار اپنی دوکان ختم کر رہا ہے۔ وہ کم قیمت پر چیزیں بیچ رہا ہے۔ چینہ مارکیٹ میں زیادہ تر دوکانیں اب بند ہوگئی ہیں۔
آج کل مارٹر گولوں کی آوازیں بھی ختم ہوگئی ہیں لہٰذا رات کو اچھی طرح سے سو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ طالبان اب بھی اپنے علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ وہ بےگھر ہونے والے افراد کے لیے آنے والا امدادی سامان بھی لوٹ لیتے ہیں۔
میری ایک سہیلی نے کہا کہ اس کے بھائی نے اپنے ایک جاننے والے کو ایک رات طالبان کے ساتھ گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا تو حیران ہوا۔ ان کے بھائی کا کہنا تھا کہ یہ لڑکا صبح کو مزدوری کرتا ہے اور رات کو طالبان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے کہا میں نے ان سے پوچھا کہ میں تو تمہیں جانتا ہوں تم تو طالب نہیں ہو پھر ایسا کیوں کررہے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ صبح کو مزدوری کرکے کماتا ہوں اور رات کو طالبان کے ساتھ ہوتا ہوں تو اچھا خاصا خرچہ نکل آتا ہے اور گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں بھی مل جاتی ہیں۔
منگل تین مارچ: ’امن معاہدہ دراصل جنگ کے درمیان کا وقفہ ہے

میرے چھوٹے بھائی کو سکول جانا پسند نہیں ہے۔ وہ صبح سکول جاتے وقت روتا ہے اور واپسی پر ہنستا ہے۔ لیکن آج روتے ہوئے واپس آیا تو امی نے رونے کی وجہ پوچھی۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے سکول سے آتے وقت ڈر لگ رہا تھا۔ جب بھی کوئی شخص نظرآتا تو میں ڈر جاتا کہ کہیں وہ مجھے اغواء نہ کرلے۔
میرا یہ چھوٹا بھائی اکثر دعا کرتا ہے کہ ’اے اللہ سوات میں امن لے آنا اگر نہیں آتا تو پھر امریکہ یا چین کو یہاں لے آنا‘۔
سوات میں آج پھر طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی ہوئی ہے۔ کچھ دنوں سے ایسے واقعات ہورہے ہیں۔ آج میں نے کئی دنوں کے بعد پہلی مرتبہ مارٹر گولوں کی آوازیں سنیں۔ لوگوں میں پھر امن معاہدے کے ٹوٹنے کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’دراصل امن معاہدہ مستقل نہیں بلکہ یہ جنگ کے درمیان کا وقفہ ہے‘۔
بدھ چار مارچ: ’طالبان ایف ایم بند ہوگا تو امن آئے گا

آج کلاس میں استانی نے پوچھا کہ تم میں سے کون کون طالبان کا ایف ایم چینل سنتا ہے تو زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ اب سننا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن کچھ لڑکیاں اب بھی سن رہی ہیں۔ لڑکیوں کا خیال تھا کہ جب تک ایف ایم چینل بند نہیں ہوتا تب تک امن نہیں آسکتا۔
طالبان کہتے ہیں کہ وہ ایف ایم چینل کو درسِ قرآن کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن کمانڈر خلیل ابتداء میں کچھ دیر کے لیے درس قرآن دینا شروع کردیتے ہیں مگر پھر آہستہ سے موضوع بدل کر اپنے مخالفین کو دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ جنگ، تشدد اور قتل کے سبھی اعلانات ایف ایم سے ہوتے ہیں۔
آج ہم جب ریسس کے دوران کلاس سے باہر نکلے تو فضاء میں ہیلی کاپٹر نظر آیا۔ جہاں ہمارا سکول واقع ہے وہاں پر ہیلی کاپٹر کی پرواز بہت نیچی ہوتی ہے۔ لڑکیوں نے فوجیوں کو آوازیں دیں اور وہ بھی جواب میں ہاتھ ہلاتے رہے۔ فوجی اب ہاتھ ہلاتے ہوئے تھکے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں کیونکہ یہ سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے جاری ہے۔ (جاری ہے۔۔۔)
 Get News Alerts on your mobile type "Follow MoeenWattoo" and send to 40404  
(for Pakistan only)

No comments:

Post a Comment

Facebook Followers