نُصرف الاٰیات
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ
الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُدًّا◌ (19:97)
ترجمہ: ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں بہت ہی آسان کر دیا ہے کہ
تو اس کے ذریعہ سے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے۔
وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ◌ (20:47)
اور سلامتی اسی کے لئے ہے جو ہدایت کا پابند ہو جائے۔
؏اسی کشمکش میں
گذری میری زندگی کی راتیں
کبھی سوزوسازرومی کبھی پیچ
و تاب رازی
بہت عرصہ کی سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد قرآن حکیم کو
سمجھ کر ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا جو آسان طریقہ مجھے سمجھ آیا وہ آپ کے پیش خدمت
ہے۔ امید ہے اس طریقہ سے آپ جلد از جلد قرآن حکیم سمجھ کر پڑھنے کے قابل ہو جائیں
گےاور اس کے بعد اس پر عمل پیرا ہوں گے۔
قرآن حکیم پر غوروفکر اور تدبر و
تفکر اس کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ
أَقْفَالُهَا◌ (47:24)
ترجمہ: کیا یہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں
پر تالے لگ گئے ہیں۔
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ
لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ◌ (38:29)
ترجمہ: یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا
ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
آخر قرآن کی زبان آسان بنانے کا مقصد اوپر بھی آ چُکا ہے اس آیت میں بھی ملاحظہ فرمائیں۔
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ
يَتَذَكَّرُونَ◌ (44:58)
ترجمہ:ہم نے اس (قرآن) کو تیری زبان میں آسان کردیا تاکہ وه
نصیحت حاصل کریں۔
آپ خود سوچیں کہ آپ
کو جو پیغام دیا جا رہا ہےوہ آپ کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تو آپ نے اس پر عمل کیا
کرنا ہے اور اگر کسی کے کہنے پر عارضی طور پر عمل کر بھی لیا تو استقامت نہیں ہو
گی نہ ہی رقت قلبی اور خشیت الٰہی ہو گی۔ ایک ایک آیت اور کلمہ سمجھ کر پڑھنے
سےانسان کا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ عمل کی رغبت بڑھتی ہے۔ اس آیت کے بعد اب عیوب وذنوب کی آگاہی کے بعد ان کو ترک کرنے کا مرحلہ
تیزی سے شروع ہو جاتا ہے۔ تزکیہ نفس ہوتا ہے آخر کار انسان نفسِ مطمئنہ کی منزل حاصل کر لیتا ہے جو
کہ اللہ تعالٰی کو مقصود و مطلوب ہے۔ اسی کے لیے خطاب ہے
اور اسی پر سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ◌(مہربان رب کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا) ایسے ہی
افراد جنتی ہوں گے اور وہ اس دنیا مین رہتے ہوئے کبھی کسی کبیرہ گناہ تو درکنار
صغیرہ گناہ میں بھی مسلسل ملوث نہیں ہوتے اور بشری تقاضوں کے تحت جب ان سے جب کوئی
غلط کام سرزد ہو جاتا ہے تو فوراً تائب ہو
جاتے ہیں اور" قَالَ رَبِّ
إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ
الرَّحِيمُ" اور
" قَالَ رَبِّ إِنِّي
ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ
الرَّحِيمُ" کو حرز جاں بنا لیتے
ہیں ۔ یہ کتاب تدبر کے لیے اتاری گئی اس
کے بعد تذکر کا آغاز ہوتا ہے جو کہ تزکیہ نفس کا آغاز ہے۔ اور پھر انسان دوسرے
انسانوں کے لیے آخری درجہ کی احسن کوشش (اپنے
ارد گرد اصلاح معاشرہ کے لیے) کرتے ہیں جس سے اجتماعی فلاحِ انسانیت کا پلان بنتا
ہے۔
قرآن حکیم کو سمجھانے ، تفہیم ، تذکیر و تبلیغ کا جو اللہ
تعالٰی نے ایک طریقہ بتایا ہے وہ نُصرّفُ لاٰیات ہے یعنی آیات کو بار بار پھیر کر بیان کرنا تا کہ لوگ اِن کو سمجھ سکیں اور
یاد رکھ سکیں۔ اور ان پر غور و فکر کر سکیں۔
قال اﷲ تعالٰی فی القران
الکریم:
انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيَاتِ ثُمَّ هُمْ
يَصْدِفُونَ◌(6:46)
ترجمہ: آپ
دیکھئے تو ہم کس طرح دﻻئل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض
کرتے ہیں۔
انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ
يَفْقَهُونَ◌ (6:65)
ترجمہ: آپ دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دﻻئل مختلف پہلوؤں
سے بیان کرتے ہیں شاید وه سمجھ جائیں۔
كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ◌ (7:58)
ترجمہ:اسی طرح ہم دﻻئل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو شکر کرتے ہیں۔
لہٰذا میں نے اس سے یہ طریقہ اخذ کیا ہے کہ جو آیات بار بار
آئی ہیں ان کو یکجا کیا جائے اس کے علاوہ
آیات کے کچھ حصے یا کلمات جو 2 بار، 3 بار
، 4 بار یا اس زائد بیسیوں بار آئے ہیں ان کو ترتیب وار ترجمہ کے ساتھ دیا جائے تا کہ ایک عام سطحی ذہن کا
آدمی بھی ان کو سمجھ کر یاد کر لے تو وہ آدھے سے زیادہ قرآن حکیم سمجھنے کے قابل
ہو سکتا ہے اور بقیہ کے لیے وہ کسی بھی لفظی ترجمہ والے قرآن حکیم سے خود ہی بغیر کسی استاد کے با
آسانی سمجھ سکتا ہے۔
موجودہ کتاب میں جو آیات یا ان کے حصے دیے گئے ہیں ان کو
پہلے آپ نے ناظرہ اس طرح پڑھنا ہے کہ یاد ہو جائیں اس کے بعد ہر روز ایک یا دو کو
ہزاروں بار دہرانا ہےجیسے کوئی وظیفہ کیا
جاتا ہے ۔ نُصرّفُ لاٰیات کے حوالے سے آیات اور کلمات کے بار بار پھیر کر لانے کے حوالہ سے ایسی ایسی
باریک بینی اور نکتہ آفرینی سامنے آئی ہے کہ ایک ماہر شناور اور غوطہ زن فی القرآن
مومن کے علاوہ شاید ان دقیق نکات تک ہزاروں بار سطحی طور پر پڑھنے والا فرد بھی رسائی حاصل نہیں کر پاتا۔ دو آیات ہوں یا
دو کلمات یا اس سے زائد ان میں بعض اوقات صرف ایک یا دو اعراب کی کمی بیشی کبھی
کسی ایک حرف کی کمی بیشی اور بعض دفعہ ایک دو یا زائد کلمات کی کمی بیشی کے علاوہ
آیات و کلمات کی ترتیب آگے پیچھے اور بعض اوقات
آیات یا کلمات ایک جیسے یا مفاہیم بالکل مختلف اور بعض اوقات آیات و کلمات مختلف
مگر موضوع اور مفہوم ملتے جلتے
ہوتے ہیں گویا قرآنِ حکیم نُصرّفُ لاٰیات و کلمات سے بھرا پڑا ہے۔ساری
بات کا لُبِ لباب یہ ہے کہ ہم سب کو قرانِ حکیم کے ایک ایک زیر ، زبر ، حرف اور
کلمہ پر نہایت توجہ دینے اور غورو فکر کرنے کی رورت ہے بلکہ اس کو سمجھنا اور اس
پر عمل کرنا دراصل مطلوب ہے۔ امید ہے تین ماہ میں آپ قرآن حکیم کو آپ سمجھنا
شروع کر دیں گےاور اس کی تلاوت کرتے ہوئے آپ کو ایک کیف اور لطف آئے گا اور آپ اس کو ذوق و شوق سے پڑھیں گے۔ کسی منزل کو حاصل
کرنے کاشوق ہی واحد رستہ ہے۔ چند باتوں کو آپ حرزِ جاں بنا لیں تو منزل بہت آسان
ہو جائے گی۔ جس کے لیے سیّدنا رسول کریم ﷺ
سے سچی محبت اور اطاعت وفرمانبرداری شرطِ
اول ہے۔ اس کے بغیر ہر منزل اور کامیابی ادھوری شمار ہو گی۔
1-صدق مقال اور اکل حلال کے ساتھ قلّت طعام و منام ہو تو منزل قریب تر ہو
جاتی ہے۔ 2- اقیموالصلٰوۃ اور مسلسل دعا۔
3- ان قراناً الفجر کان مشھودًا۔ 4- آہ سحر گاہی ۔
5- و بالوالدین احسانا۔
6- حقوق العباد، کسی کا ذرہ بھر حق آپ کی طرف نہ ہو، سب
سے مشکل ترین کام یہی ہے۔
پروفیسر(ر) عاشق حسین
0333-5267152