Friday, 2 December 2016

ہزاروں سال تک چارج رہنے والی ہیرے سے بنی تابکاری بیٹری

ہزاروں سال تک چارج رہنے والی ہیرے سے بنی تابکاری بیٹری
علیم احمد(ایکسپریس نیوز)


لندن: یونیورسٹی آف برسٹل، برطانیہ کے سائنسدانوں نے ایٹمی فضلے کو مصنوعی ہیرے میں بند کرکے 100 سال تک چارج رہنے والی بیٹری کے طور پر استعمال کرنے کا انوکھا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

یہ ایجاد اس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ تابکار ایٹمی فضلے کی تلفی ایک بڑا دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں ہزاروں ٹن تابکار فضلہ موجود ہے جسے تلف کرنے کا کوئی کم خرچ طریقہ فی الحال ہمارے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے زمین کی بہت زیادہ گہرائی میں انتہائی محفوظ جگہوں پر دفن کرنا پڑتا ہے جس پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں مگر یہ لاگت برداشت کرنا امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی بہت مشکل ہے۔



موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کے 30 ممالک میں 444 ایٹمی بجلی گھر (نیوکلیئر ری ایکٹرز) کام کررہے ہیں جب کہ 15 ملکوں میں مزید 63 نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر جاری ہے یعنی تابکار فضلہ نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس میں اضافے کی رفتار مزید بڑھنے کا بھرپور امکان بھی ہے۔

سائنسندانوں کی تیار کردہ تابکار بیٹری (جس کے پروٹوٹائپ میں تابکار ’’نکل 63‘‘ پر مشتمل مصنوعی ہیرا استعمال کیا گیا ہے) اس ضمن میں دُہرے فائدے کی حامل ہوسکتی ہے۔ اوّل یہ تابکار فضلے کو ٹھکانے لگانے کا محفوظ طریقہ ہے اور دوم اس سے توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت پوری کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ البتہ تابکار نکل کے ہیرے والی اس بیٹری میں توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ’’صرف‘‘ 100 سال بعد نصف رہ جائے گی۔

100 سال تک چارج رہنے کا راز:
تابکار ایٹموں کے مرکزے (نیوکلیائی) غیر قیام پذیر ہوتے ہیں اور اسی لیے ان میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی جاری رہتا ہے جس کی بدولت وہ خود کو قیام پذیر اور غیر تابکار عناصر میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے کسی تابکارعنصر کے ایٹموں کی تعداد بتدریج کم ہوتی رہتی ہے اور ایک خاص مدت کے بعد اس عنصر کے نمونے میں تابکار ایٹموں کی تعداد نصف رہ جاتی ہے جسے اس عنصر کی ’’نصف عمر‘‘ (ہاف لائف) بھی کہا جاتا ہے، نکل 63 کی نصف عمر 100 سال ہے۔
البتہ اسی دوران وہ حرارت کی شکل میں بھی توانائی خارج کرتے ہیں جسے ’’انحطاطی حرارت‘‘ (decay heat) کہا جاتا ہے اور جیسے جیسے کسی عنصر کے نمونے میں تابکار ایٹموں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے خارج ہونے والی یہ حرارت بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس عنصر کی نصف عمر پوری ہونے پر وہ حرارت آدھی رہ جاتی ہے۔
سو سال تک ’’چارج‘‘ رہنے والی بیٹری کا راز بھی یہی ہے۔

ہیروں کے قیدی:
انحطاطی حرارت سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ تابکاری کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اسکاٹ اور سائنسدانوں  نے فیصلہ کیا کہ تابکار مادّوں کی معمولی مقداروں کو کاربن پر مشتمل مصنوعی ہیروں میں بند کردیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کم مقدار والے تابکار مادّے سے خارج ہونے والی خطرناک شعاعیں ہیرے کے اندر ہی دوبارہ جذب ہوجائیں گی جب کہ صرف حرارت ہی باہر نکل سکے گی۔ یعنی ایسے ہیروں کو توانائی حاصل کرنے میں بہ آسانی استعمال کیا جاسکے گا۔

اس تصور کی حقیقت اور افادیت ثابت کرنے کے لیے ماہرین کی اس ٹیم نے ابتدائی طور پر تابکار ’’نکل 63‘‘ کا انتخاب کیا جسے مصنوعی ہیرے میں بند کرنے کے بعد پروٹوٹائپ بیٹری کے طور پر اس کا کامیاب تجربہ بھی کرلیا گیا۔ لیکن یہ تو صرف ابتدائی تجربہ تھا ورنہ ان کا اصل ہدف تو اس سے بھی کہیں زیادہ عرصے تک چارج رہنے والی بیٹریاں تیار کرنا ہے اور ان کی آئندہ کوششیں اسی بارے میں ہوں گی۔



ہزاروں سال تک چارج رہنے والی بیٹری:
بات عجیب لگتی ہے لیکن حقیقت ہے کہ تابکار ’’کاربن 14‘‘ کی نصف عمر 5730 سال ہے۔ (یہ وہی کاربن ہے جس سے ’’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘‘ نامی تکنیک میں آثارِ قدیمہ کی عمر معلوم کی جاتی ہے۔) یعنی اگر اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے، تابکار کاربن استعمال کرنے والی بیٹری تیار کرلی جائے تو اس کی چارجنگ 5730 سال کے بعد آدھی ہوگی۔
ایٹمی بجلی گھروں کے تابکار فضلے میں ’’کاربن 14‘‘ کی بھی کوئی کمی نہیں کیونکہ آج سے تقریباً 40 سال پہلے تک ایٹمی بجلی گھروں میں گریفائٹ (کاربن کی بہروپی شکل) کی سلاخیں نیوٹرون جذب کرنے کے لیے (موڈیریٹر کے طور پر) استعمال کی جاتی تھیں۔ نیوٹرون جذب کرنے سے پہلے یہ عام اور غیر تابکار ’’کاربن 12‘‘ پر مشتمل ہوتی تھیں لیکن نیوٹرون جذب کرنے کے نتیجے میں وہ کاربن 14 میں تبدیل ہوجایا کرتی تھیں۔



دنیا کے کئی ملکوں میں اس وقت ایٹمی بجلی گھروں کے تابکار فضلے میں لاکھوں ٹن کاربن 14 کی دیوقامت سلاخیں بھی شامل ہیں۔ اگر صرف برطانیہ کی بات کریں تو وہاں کاربن 14 والے بلاکوں کا مجموعی وزن 95000 ٹن سے زیادہ ہے جو آج تک اپنی محفوظ تلفی کے منتظر ہیں۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عام بیٹریوں سے 700 جول فی گرام کے حساب سے توانائی خارج ہوتی ہے اور چھوٹی ٹارچ میں عام استعمال ہونے والی ڈبل اے (AA) بیٹری اس شرح پر صرف 24 گھنٹے میں مکمل ڈسچارج ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس کاربن 14 سے نکلنے والی انحطاطی حرارت صرف 15 جول فی گرام ضرور ہوتی ہے لیکن تابکار ہونے باعث یہ اسی شرح پر آہستہ آہستہ کرکے مسلسل ہزاروں سال تک خارج ہوتی رہتی ہے۔ کاربن 14 کا صرف ایک گرام اپنی نصف عمر کے دوران مجموعی طور پر 1500 ارب جول کے لگ بھگ توانائی خارج کرتا ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی روایتی بیٹری نہیں کرسکتی۔



یعنی اگر کاربن 14 کی انحطاطی حرارت سے استفادہ کرنے والی کوئی بیٹری تیار کرلی جائے تو وہ کم از کم چھوٹے اور کم توانائی استعمال کرنے والے آلات کو ہزاروں سال تک مسلسل توانائی فراہم کرتی رہے گی۔

سائنسدانوں کی ٹیم کا اگلا ہدف ایسی ہی ایک بیٹری کی تیاری ہے اور انہیں امید ہے کہ یہ نکل کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوگی کیونکہ مصنوعی ہیرا اور تابکار گریفائٹ (کاربن 14) دونوں کاربن ہی کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ توقع ہے کہ اس منصوبے پر بھی وہ جلد ہی کام شروع کردیں گے اور شاید آنے والے چند سال میں ایسی کوئی ’’ہیرا بند تابکار بیٹری‘‘ تجارتی پیداوار کےلئے تیار بھی ہوگی… ایک ایسی  بیٹری جسے عملاً کبھی ری چارج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Wednesday, 28 September 2016

Best Tribute by Javed Chaudhary

بیسٹ ٹری بیوٹ

جنرل پرویز مشرف اور افتخار محمد چوہدری دونوں بیک وقت خوش نصیب اور بدقسمت ترین کردار ہیں‘ آپ ان کی اٹھان اور آخر میں کٹی پتنگ کی طرح گرنے کی داستان پڑھیں‘ آپ توبہ استغفار پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ دونوں ثابت کرتے ہیں اللہ جن بااختیار لوگوں سے ناراض ہوتا ہے یہ انھیں کرسی سے اتار کر طویل زندگی دے دیتا ہے اور یہ باقی زندگی عظمت رفتہ کا نوحہ بن کر گزارتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کون تھے؟

یہ کلرک سید مشرف اور اسکول ٹیچر زرین مشرف کے بیٹے تھے‘ ماں کرائے کے پیسے بچاتی تھی‘ فروٹ خریدتی تھی اور پرویز مشرف یہ فروٹ کھاتے تھے‘ یہ بھائیوں کے مقابلے میں نالائق تھے‘ یہ فوج میں بھی ’’ایوریج‘‘ تھے‘ فوج سے کئی بار نکلتے نکلتے بچے‘ کیریئر کے شروع میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نے ان کی مدد کی‘ جنرل اعجاز عظیم بھی ایک بار ان کے لیے غیبی فرشتہ بنے‘ یہ میجر جنرل راشد قریشی کے سسر تھے‘ جنرل مشرف اور راشد قریشی کے تعلقات کے پیچھے جنرل اعجاز عظیم کا احسان تھا‘ یہ 1998 میں منگلا کے کور کمانڈر تھے‘ ریٹائرمنٹ یقینی تھی‘ یہ سامان پیک کر رہے تھے‘ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے ان کی سفارش کی اور میاں نواز شریف نے سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے انھیں آرمی چیف بنا دیا‘ یہ شکل اور خاندان سے مسکین لگتے تھے‘ میاں برادران نے ان کی مسکینی کی وجہ سے انھیں آرمی چیف بنایا تھا لیکن پھر اسی مسکین نے میاں صاحبان کا دھڑن تختہ کر دیا اور شریف خاندان ہیوی مینڈیٹ سمیت جنرل مشرف کی قید میں آگیا۔

دنیا نے شروع میں جنرل پرویز مشرف کو قبول نہیں کیا‘ سعودی عرب‘ امریکا اور برطانیہ تینوں میاں نواز شریف کے ساتھ تھے‘ صدر بل کلنٹن 25 مارچ 2000 کو چند گھنٹوں کے لیے پاکستان آئے‘ صدر رفیق احمد تارڑ سے ملاقات کی اور سامنے بیٹھے جنرل پرویز مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھا‘ سعودی سفیر بھی ملک کے نئے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھا اور برطانیہ نے بھی پاکستان سے قطع تعلق کر لیا تھا لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی قسمت چمکی‘ نائن الیون ہوا اور یہ پوری دنیا کی آنکھ کا تارا بن گئے‘ وہ امریکا جو کبھی جنرل مشرف سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں تھا وہ انھیں کانگریس میں خطاب کی دعوت دینے لگا۔

وہ سعودی عرب جس نے اپنے سفیر کو جنرل مشرف سے ملاقات سے روک دیا تھا وہ جنرل پرویز مشرف کے لیے خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے دروازے کھولنے لگا اور وہ برطانیہ جس نے پاکستان سے قطع تعلق کر رکھا تھا اس کی ملکہ محل کے دروازے کھول کر ملٹری ڈکٹیٹر کا استقبال کرنے لگی‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر نائن الیون ایک سال پہلے ہو گیا ہوتا تو جنرل مشرف میاں نواز شریف کو پھانسی دے دیتے اور دنیا کا کوئی ملک احتجاج نہ کرتا‘ یہ میاں نواز شریف کی ’’لک‘‘ تھی‘ نائن الیون شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد ہوا ورنہ آج تاریخ مختلف ہوتی‘ بہرحال نائن الیون کے بعد جنرل پرویز کا ستارہ مزید چمکنے لگا‘ یہ وہ سب کچھ کرتے چلے گئے جو ان کے دل میں آتا تھا‘ جنرل پرویز مشرف 2007تک عروج پر رہے لیکن پھر مارچ 2007میں ملک کے دوسرے خوش نصیب ترین شخص چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ان سے ٹکرا گئے۔

افتخار محمد چوہدری بھی کوئٹہ کے درمیانے درجے کے وکیل تھے‘ یہ 1990میں عدلیہ میں آئے اور بلوچستان کے ڈومی سائل کی وجہ سے ترقی کرتے چلے گئے‘ جنوری 2000میں سپریم کورٹ کے چھ ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا‘ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی ان میں شامل تھے ‘افتخار محمد چوہدری کوئٹہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان آ گئے‘یہ 30 جون 2005 کو ملکی تاریخ میں طویل ترین مدت کے لیے چیف جسٹس بن گئے‘ یہ پاکستانی عدلیہ کے خوش نصیب ترین جج اور جنرل مشرف فوج کے خوش قسمت ترین جرنیل تھے‘ یہ دونوں 2007میں ٹکرائے اور جنرل پرویز مشرف کا ستارہ پسپا ہونے لگا‘ جنرل مشرف نے 28 نومبر 2007 کو یونیفارم اتار دی۔
یونیفارم اترنے کی دیر تھی جنرل مشرف کی طاقت‘ سیاست اور بھرم تینوں ننگے ہو گئے‘ شوکت عزیز لندن گئے اور واپس مڑ کر نہ دیکھا‘ چوہدریوں نے پاکستان مسلم لیگ ق پر قبضہ کر لیا‘ فوج نئے کمانڈر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاتھ میں چلی گئی‘ ایوان صدر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے خالی کرا لیا ‘ یہ مہاجر بن کر ایم کیو ایم کی طرف گئے تو الطاف بھائی نے  پرانے کھاتے کھول لیے اور پیچھے رہ گئی جمع پونجی تو یہ درانیوں‘ میمنوں اور شیخوں کے پیٹ میں چلی گئی‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یو اے ای اور سعودی عرب نے شروع میں اپنے پرانے ساتھی کا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے ‘ جنرل مشرف نے آخری کوشش کی‘ اپنی پارٹی بنائی لیکن جو باقی بچا تھا وہ فواد چوہدری جیسے ماہرین کے کام آ گیا اور یوں جنرل پرویز مشرف آہ‘ اف اور ہائے بن کر رہ گئے۔

میاں نواز شریف 2013میں اقتدار میں آئے اور جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی شروع کر دی‘ یہ مشرف کو ہر صورت سزا دینا چاہتے تھے‘ جنرل کیانی اس معاملے میں نیوٹرل تھے لیکن پھر راحیل شریف آرمی چیف بن گئے‘ یہ اپنے شہید بھائی میجر شبیر شریف کے دوست جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ یہاں سے فوج اور حکومت میں اختلافات پیدا ہوئے‘ فوج نے جنرل مشرف کو آرمی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرا دیا‘ پھر دھرنے آ گئے‘ حکومت کمزور ہو گئی‘ جنرل پرویز مشرف کو اس کمزوری کا فائدہ پہنچا‘ حکومت نے جنرل مشرف کا پیچھا چھوڑ دیا اور یوں یہ اپنی ’’مصروفیات‘‘ میں مصروف ہو گئے لیکن یہ پاکستان میں رہ رہ کر تھک گئے تھے۔
یہ دبئی‘ لندن اور نیویارک کو ’’مس‘‘ کر رہے تھے‘ یہ مارچ 2016 میں ’’شدید بیمار‘‘ ہو گئے‘ کراچی کے نجی اسپتال میں داخل ہو ئے‘ ڈاکٹروں کے بورڈ نے ریڑھ کی ہڈی اور بائیں پاؤں میں تکلیف کی نشاندہی کی‘ پاکستان میں اس ’’خوفناک‘‘ مرض کا علاج نہیں تھا چنانچہ طبی بورڈ نے انھیں ملک سے باہر لے جانے کا مشورہ دیا‘ حکومت اور عدلیہ ’’خوفناک‘‘ مرض کی وجہ سے نرم پڑ گئی‘ جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹا اور یہ 17 مارچ کودبئی چلے گئے‘ آپ ہوائی سفر کی ’’برکت‘‘ ملاحظہ کیجیے‘ جنرل مشرف وہیل چیئر پر جہاز میں سوار ہوئے لیکن یہ دبئی میں دوڑتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اترے اور اترتے ہی اپنے پسندیدہ سگار کا کش لگا کر صحت مندی کا جشن منایا۔

جنرل مشرف پچھلے چھ ماہ سے لندن اور نیویارک میں زندگی انجوائے کر رہے ہیں جب کہ عدالتیں پاکستان میں دھڑا دھڑ ان کی جائیدادوں کی ضبطی کے احکامات جاری کر رہی ہیں‘ جنرل مشرف کی رہائش گاہوں پر حکومتی نوٹس لگ رہے ہیں‘ یہ سلسلہ چل رہا تھا لیکن پھر اچانک نہلے پر دہلہ آ گرا‘ جنرل پرویز مشرف اپنی اہلیہ صہبا مشرف کے ساتھ 25 ستمبر 2016 کو نیویارک میں اپنی بھتیجی کی شادی میں شریک ہوئے‘ خوشی سے ان کے پاؤں تھرکنے لگے‘ جنرل مشرف کے رقص کی ویڈیو ان کے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اپ لوڈ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی‘یہ ویڈیو دنیا کے کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں‘ جنرل مشرف ویڈیو میں صحت مند لوگوں سے زیادہ اپنی کمر مٹکا رہے ہیں‘ یہ اس وقت 73 سال کے ہیں‘ آپ ان کے ہم عمر ہیں تو آپ اٹھ کر اپنی کمر مٹکا کر دیکھ لیجیے‘ آپ رقص میں جنرل مشرف کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
یہ کیا ہے؟ یہ رقص‘ رقص نہیں ہے یہ حکومت‘ عدلیہ اور طبی اخلاقیات کا جنازہ ہے‘ آپ غور کیجیے جنرل مشرف کو 11 پروفیسر ڈاکٹروں کے بورڈ نے ’’خوفناک مریض‘‘ قرار دیا تھا‘ بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز ہاشمی تھے‘ یہ اور ان کے کولیگز تمام لوگ سینئر ڈاکٹر ہیں‘ یہ رپورٹ عدالت میں پیش ہوئی‘ عدالت نے رپورٹ من وعن تسلیم کر لی اور چوہدری نثار نے عدالت کا حکم مان کر جنرل مشرف کا نام ’’ای سی ایل‘‘ سے نکال دیا گویا یہ تمام لوگ اس جعل سازی میں ملوث ہیں۔

ہماری سپریم کورٹ اگر واقعی سپریم ہے تو پھر یہ ان تمام لوگوں کو طلب کرے اور جنرل مشرف کی جھوٹی رپورٹ جاری کرنے پر ان کا محاسبہ کرے‘ عدالت کو سب سے پہلے 11 پروفیسروں کی ڈگریاں ضبط کرنی چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی جونیئر عدالت‘ سندھ حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کو کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہیے اور اگر سپریم کورٹ یہ نہیں کرتی تو پھر پوری قوم کو عدل‘ انصاف اور اخلاقیات کا جنازہ پڑھنا چاہیے‘ ہم سب باہر نکلیں‘ صفیں باندھیں‘ تکبیر پڑھیں‘ انصاف کا جنازہ ادا کریں‘ عدل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کریں اور پھر یک آواز ہو کر گائیں ’’میں شکر ونڈاں رے‘ میں شکر ونڈاں رے‘‘ اور اگر کمر اجازت دے تو ہم لوگ یہ گاتے جائیں اور جنرل مشرف کی طرح ناچتے جائیں۔

یہ قوم کی طرف سے انصاف کے لیے بیسٹ ٹری بیوٹ ہوگا۔

(جاوید چودھری)

Saturday, 4 June 2016

Thursday, 19 May 2016

انسانی بے بسی، اپنی ہی گاوں میں اجنبی بن کے رہ گئے


اپنے ہی گاؤں میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں
صبا اعتزاز
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پاک پتن

اکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے پاک پتن کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک تنگ سی گلی میں ماسٹر نذیر کی سلائی کی دکان ہے جس کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے ’سمارٹ فیشن فار لیڈیز اینڈ جینٹس‘۔
یہ الفاظ ہر بارش کے ساتھ مدھم ہوتے جا رہے ہیں اور دکان میں اب سلائی کے کام کی جگہ بھینسوں کا چارا رکھا جاتا ہے۔


ماسٹر نذیر کا پورا نام ذوالفقار نذیر ہے اور پولیس کے مطابق وہ 2014 میں رائے ونڈ میں واقع وزیر اعظم میاں نواز شریف کی رہائش گا پر مبینہ طور پر حملے کی کوشش کے دوران پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تفتیشی اہلکاروں کے مطابق ماسٹر نذیر کو 2010 میں پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے کا منصوبہ ساز بھی سمجھا جاتا ہے۔
پولیس کی جانب سے عائد ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی اور گاؤں والے کہتے ہیں کہ وہ آج تک سمجھ نہیں پائے کہ ایک شخص جو ان کے سامنے پلا بڑھا، کس طرح شدت پسندی کے راستے پر چل نکلا۔
اس گاؤں کے نمبردار کے مطابق دیہات میں کوئی گورنمنٹ سکول نہ ہونے کی وجہ سے ذوالفقار کو لاہور کے ایک مدرسے میں پڑھنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔
جب وہ یہاں سے گیا تھا تو بالکل ٹھیک تھا ، چند سال بعد واپس آیا تو داڑھی تھی اور اس کے خیالات بدلے ہوئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ واپسی کے بعد اس کا ایک مدرسے کے قاری کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بڑھ گیا اور اس کے مذہبی خیالات میں کچھ سختی آنے لگی۔
’ہماری مسجد میں کئی دہائیوں سے سب فرقوں کے لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن وہ اور ماسٹر شفیق گاؤں میں الگ مسجد بنانے کے لیے چندہ اکھٹا کرنے لگے۔ جب مجھے یہ سب پتہ چلا تو میں نے اسے گاؤں چھوڑنے کا کہہ دیا اور وہ پھر سے لاہور چلا گیا۔‘
نمبردار نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ’وہ دہشت گردی کرتے ہوئے ہلاک ہوگیا ہے۔
جب ذوالفقار کی ہلاکت ہوئی تو اس کی عمر 25 سال تھی اور ان کی بوڑھی والدہ اپنے تین پوتے پوتیوں، ذوالفقار کی بیوی اور اپنی بیٹی کے ساتھ اب بھی اسی گاؤں میں مقیم ہیں۔
تاہم ذوالفقار کے مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بات عام ہوتے ہی گاؤں والوں نے ان سے منہ پھیر لیا ہے۔
ذوالفقار کی والدہ کاکی اماں جب بھی اپنے حالات کا ذکر کرتی ہیں تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہیں۔
’میں وہ بدنصیب ماں ہوں جس کے بیٹے کو گاؤں والوں نے یہاں دفنانے بھی نہیں دیا کہ وہ دہشت گرد ہے۔ اس کے بچوں کو پہلے کوئی پڑھایا بھی نہیں کرتا تھا کہ یہ دہشت گرد کے بچے ہیں، ان معصوموں کا کیا قصور ہے؟‘

کاکی اماں کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا گندم بیچ کر اس پیسے سے لاہور میں دکان کھولنے کی غرض سے گیا تھا اور سلائی کڑھائی کے کام سے بھی گھر والوں کی روزی روٹی چلا رہا تھا ۔ ’لاہور میں اسے کون لوگ ملے، کس راستے پر لے گئے اس کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔
ذوالفقار کی والدہ کو رائےونڈ میں پیش آنے والے واقعات کا تب اندازہ ہوا جب سکیورٹی اداروں کے اہلکار ان کے گاؤں پہنچے۔ گھر گھر تلاشی کا عمل شروع ہوا اور ان کا دوسرا بیٹا جو گاؤں میں کاشتکاری کرتا تھا، اسے بھی گرفتار کیا گیا۔
میں ادھر سے ادھر پاگلوں کی طرح بھاگتی رہی کہ آخر ہوا کیا ہے؟ پانچویں یا چھٹے دن اخبار سے پتہ چلا کہ یہ سب کیوں ہوا اور میرا بیٹا دہشت۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں اسے؟ وہ کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔
کاکی اماں نے اس سے پہلے دہشت گردی کا لفظ سنا ہی نہیں تھا اور اب بھی ان کے زبان پر یہ لفظ شاید بیٹھ نہیں پایا ہے۔
شدت پسند افراد کے گھر والوں کو بھی ہمارا سماج شک یا نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کاکی اماں اور ان کے خاندان کو بھی اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ پُشتوں سے جو گاؤں ان کا ہے وہ اس میں اب خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔


کاکی اماں نے بتایا ’دنیا ہمیں طعنے دیتی ہے۔ ہم اب سر جھکا کر چلتے ہیں۔ لوگ کہتے ہین ان کو پتہ نہیں کتنے پیسے ملے ہوں گے۔ ان کا بیٹا یہ کام کرتا تھا ِ لیکن ہم یہاں مزدوری کرتے پھر رہے ہیں اور اپنے گھر کی روٹی پورے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو خاندان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہر بھیجا تھا اور اسی غربت کی وجہ سے ہی اس نے شہر میں کاروبار بھی شروع کیا گیا تھا، لیکن غربت ویسی ہی رہی، ان کا بیٹا ان سے چھن گیا۔
’اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں کیوں اسے وہاں بھیجتی، اپنا بیٹا کیوں گنواتی، یہ واقعہ ہمارے لیے موت ہے، ہم اس کے ساتھ ہی مر گئے ہیں، ختم ہو گئے ہیں۔‘

Salman Taseer's Abducted Story

دو سڑکوں کے درمیان ساڑھے چار سال کا مشکل سفر
شہباز تاثیر
لاہور، پنجاب
(پنجاب کے سابق مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو 26 اگست 2011 کو لاہور سے اغوا کیا گیا تھا اور تقریباً ساڑھے چار سال بعد آٹھ مارچ 2016 کو ان کی رہائی عمل میں آئی تھی)



26 اگست 2011
ایک عام سا دن، دفتر جانے کے لیے وہی پرانا راستہ اور ذہن میں گردش کرتے ہوئے وہی عام سے خیالات۔ سامنے ایک گاڑی راستہ روکے ہوئے ہے۔ میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ جب وہ میری کنپٹی پر پستول رکھتے ہیں تب کہیں جا کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری دنیا تہہ و بالا ہونے کو ہے۔
آٹھ مارچ 2016
یہ کوئی عام دن نہیں ہے۔ میں جس موٹر سائیکل پر سفر کر رہا ہوں وہ پکی سڑک پر چڑھ جاتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ یہ راستہ آزادی کی منزل کی طرف جاتا ہے۔ دو سڑکیں اور ان کے درمیان ساڑھے چار سال کا لمبا، مشکل سفر۔
اِغوا ہونے کے تیسرے ماہ تک میں جان چکا تھا کہ یہ کوئی عام اِغوا برائے تاوان نہیں۔ میرے اغوا کارروں نے پنجاب کے سابق گورنر کے بیٹے کو اٹھا کر ایک پوائنٹ سکور کیا تھا۔ یہاں پیسے سے کہیں کچھ بڑھ کے داؤ پر لگا ہوا تھا۔ وہ مختلف جیلوں میں قید اپنے ’بھائیوں‘ کی رہائی چاہتے تھے۔
مجھے معلوم تھا کہ راستہ کٹھن ہو گا اور میری رہائی میں وقت لگے گا۔ ایسے تاریک لمحات میں آپ بڑی آسانی سے مایوسی کے سمندر میں ڈوب سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی بات سے جوڑے رکھیں۔ میرے لیے یہ بات میرے والد کی یادیں تھیں۔ ان کی بہادری، ارادوں کی پختگی اور اپنی سوچ کی خاطر ڈٹ جانا۔ انھوں نے ایک آمر کے خلاف تشدد اور قیدِ تنہائی برداشت کی اور اس صورت حال سے مزید مضبوط بن کر نکلے۔
میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ اگر وہ سرخرو ہو کر نکل سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔ پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میرا خاندان مجھے واپس لانے کے لیے سب کچھ کرے گا۔ میرے گھر والے امید کا دامن تھامے رہیں گے۔ اس کے علاوہ میرا ایمان تھا اور قرآن مجید۔ اس میں بہت تسکین تھی، آرام تھا، جس نے میری سوچ کو تقویت پہنچائی کہ خدا میرے ساتھ ہے اور آزادی کا ایک دن ضرور آئے گا۔
جسمانی اذیت چوتھے ماہ شروع ہوئی۔ میرے ازبک اغوا کندگان کو ایذارسانی میں عجیب مزا ملتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں زیادہ عبادت کرتا اور اس سے راحت پاتا تھا۔ میں دعا کرتا تھا کہ اس دن اور اس کے اگلے دن درد کی دھار کند ہو جائے۔ میں درد کو اس وقت تک برداشت کرنے کی دعا کرتا تھا جب تک خود درد پہنچانے والے کمزور نہ پڑ جائیں۔ میں اپنے والد کے بارے میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جسمانی درد کو اپنی روح کو متاثر نہ کرنے دیں تو یہ محض سطحی ہوتا ہے۔ میں نے اسی خیال کا دامن تھامے رکھا اور امید کبھی نہیں ہاری۔ امید کا دامن آپ کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔

میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کس چیز کو برداشت کرنا زیادہ مشکل تھا، جسمانی مارپیٹ یا پھر وہ ذہنی داؤ پیچ جو وہ میرے ساتھ لڑاتے تھے۔ وہ مجھے میرے خاندان کی ٹویٹس دکھاتے اور کہتے کہ یہ دیکھو وہ تمھیں بھول گئے ہیں یا تمھارے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں، اور دیکھو کہ تمھاری والدہ کو نشانہ بنانا کتنا آسان ہے۔
وہ ہمیشہ میرے دماغ میں شک کے بیج بونے کی کوشش کرتے کہ کوئی میرے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور میری رہائی کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے میری بیوی کی کعبے میں تصویر کو منافقت کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرا کچھ خیال نہیں ہے۔ میری بہن کی نیلسن منڈیلا کی موت پر پوسٹ کو اس طرح پیش کیا کہ دیکھو وہ ایک کافر کی پوجا کرتی ہے۔ میرے بھائی کی ایک سماجی تقریب میں تصویر سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ تمھارا خاندان کتنی بےراہ روی کا شکار ہے۔
تاہم انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ سب باتیں مجھے مزید تقویت بخشتی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا خاندان ٹھیک ہے، مجھے معلوم تھا کہ وہ اور کئی اور لوگ میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں اور مجھے ہرگز نہیں بھولے۔
اور پھر میرے اندر نیلسن منڈیلا کی ’آزاد سپرٹ‘ کو اپنانے کا عزم تھا۔ میں نے عہد کیا کہ میں بھی ایک نہ ایک دن ان کی طرح آزادی حاصل کر لوں گا۔
قید تنہائی، اکیلا پن، شک اور اضطراب ذہن پر عجیب اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ آپ اپنے ذہنی توازن پر شک کرنے لگتے ہیں۔ وہ چہرے جنھیں آپ پیار کرتے ہیں دھندلے پڑنے لگتے ہیں۔ وہ آوازیں جو آپ اکثر سنا کرتے تھے، بھولنے لگتی ہیں لیکن یادوں کا اپنا ایک جادو ہے۔ یہ زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہیں۔ میں گھر نہیں جا سکتا تھا، لیکن گھر کو تو اپنے پاس بلا سکتا تھا۔ وہ جگہیں جہاں میں جایا کرتا تھا وہ میری یاد میں آ کر اور پرمسرت ہو جاتی تھیں۔ میں ان پرسکون جگہوں پر رہنے والے لوگوں سے دھیمی دھمی گفتگو کیا کرتا تھا جو اندھیرے کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔
لیکن آپ شور شرابہ کرنے والے دوستوں کے ساتھ دھیمی دھیمی گفتگو نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں انھیں ایک ایک کر کے خیالوں میں لاتا تھا، اور اپنے آپ کو ایک سٹینڈ اپ کامیڈین تصور کر کے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزاحیہ بات چیت کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ اس مشق کی وجہ سے مجھے اپنے ماضی کا سامنا کرنے میں آسانی ہو جاتی تھی۔
ان تمام برسوں میں کوئی 30 ماہ ایسے تھے جس میں میرا بیرونی دنیا سے ہفتہ وار بغیر کسی نگرانی کے ایک عجیب و غریب قسم کا رابطہ ہوتا تھا۔ میرا محافظ میری طرح تھا، مانچسٹر یونائیٹڈ کا دلدادہ۔ وہ ہر دوسرے ہفتے ایک ریڈیو چھپا کر میرے کمرے میں لے آتا اور ہم مل کر کمنٹری سنتے۔
اس کے نزدیک یہ ایک لطف انگیز گناہ تھا کیونکہ ان کے مطابق کھیلوں میں حصہ لینا اور سننا دونوں حرام تھے۔ میرے لیے وہ دنیا کی جانب کھلنے والی کھڑکی تھی۔ ایک ایسی دنیا جہاں ذہنی توازن کھو دینا انتہائی آسان تھا، مین یونائیٹڈ کی خبریں مجھے ذہنی توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی تھیں۔ میں اپنے آپ سے کہتا کہ ’تم مین یونائیٹڈ کے واحد مداح ہو گے جو اس طرح کی صورتِ حال میں گھرا ہوا ہے۔ وہ صرف تمھارے لیے میچ جیت رہے ہیں۔
کافی عرصے بعد قدرت نے ایک ڈرامائی چال چلی اور مین یونائیٹڈ کا وہ خفیہ مداح خود قیدی بن گیا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا: ’میں نے ہمیشہ تمھارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔‘ میرے منہ سے نکلا، ’اچھا؟۔۔۔ تمھی تو ہو جس نے ہر روز مجھ پر میری زندگی کا دروازہ بند کیا تھا۔
وہ دوسری جانب دیکھنے لگا اور مجھے نہیں لگتا کہ میری بات اس کی سمجھ میں آئی تھی۔
ماضی میں جھانکتے ہوئے میں دیکھ سکتا ہوں کہ میں ہمیشہ آزاد تھا۔ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا آپ کو کبھی قید نہیں کر سکتا۔ وہ میری زندگی مشکل بنا سکتے تھے لیکن جب تک میں برداشت کر سکتا تھا، میں آزاد تھا۔ ۔ مجھے معلوم تھا کہ میں خدا کے ہاتھوں میں ہوں، نہ کہ ان کے ہاتھ میں۔ اور خدا نے میرا خیال معجزاتی طور پر ہمیشہ برقرار رکھا۔ ڈرون، بیماری، گولی، جسمانی تشدد، رہائش کے ناگفتہ بہ حالات، جھڑپیں، افغان طالبان کا ازبکوں کو اکھاڑ پھینکنا، اسی نے ان سب سے مجھے گزارا۔
میں گھر واپس آ چکا ہوں اور اب یہ میری دنیا ہے۔ میں اب بغیر کسی کے خوف کے معمول کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں لیکن بہت سی اہم چیزیں جوں کی توں ہیں۔ میں اپنی بیوی، والدہ، بہن اور بھائی کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی از سرِنو تعمیر کرنے کے لیے انھی کی ضرورت ہے۔
دنیا کا ایک مضبوط حصہ دوسروں کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت، سچائی کی خاطر اٹھ کھڑا ہونے اور انسانی روح کی آزادی کی خوشی منانا ہے۔ اس لیے میری بات علی حیدر گیلانی اور دوسرے تمام قیدی سنیں۔ آپ کو زیادہ دن پابند سلاسل نہیں رکھا جا سکتا اور ایک نہ ایک دن آپ واپس لوٹیں گے۔

ساری زندگی تند و تلخ سوچوں میں گزاری جا سکتی ہے کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ساتھ جو برے حالات پیش آتے ہیں ان میں سے بہت سوں کے ذمہ دار ہم نہیں ہوتے، بلکہ اس کا سبب دوسروں کی لالچ، بدنیتی اور بے رحمی بھی ہو سکتے ہیں۔ شاید اس سب کے پیچھے کوئی آفاقی مقصد موجود ہے۔ میں نہیں جانتا، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ حالات کا سامنا کیسے کرتے ہیں، آپ بدقسمتی سے کس آن بان سے نمٹتے ہیں، مشکلات کا مقابلہ کس مضبوطی اور حوصلے سے کرتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہی چیزیں ہیں جنھیں خدا دیکھتا اور ان کی بنیاد پر فیصلے صادر کرتا ہے۔ ممتحن انھی سوالوں کے جوابات دیکھتا ہے اور ان کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بنیاد پر میرے نمبر ٹھیک آئیں گے۔ کم از کم علامات سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔
ذرا سوچیے۔۔۔29 فروری کی صبح جب ایک افغان بزرگ مجھے رہا کرنے کے لیے قیدخانے کا دروازہ کھول رہے تھے، تو اسی وقت سینکڑوں میل دور ایک اور زندان کا دروازہ کھولا جا رہا تھا اور جلاد میرے والد کے قاتل کو پھانسی دینے کی تیاریاں کر رہا تھا۔
یہ مارچ کا وہ غیر معمولی دن تھا جب میں ایک پکی سڑک پر سفر کر رہا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ اس لمحے کے بارے میں سوچتا جا رہا تھا جب میں نے قید کے چھ ماہ بعد اپنی بیوی اور ماں سے بات کی تھی۔
مجھے کہا گیا تھا کہ مجھے گولی ماری جانے والی ہے اس لیے میں خدا حافظ کہہ لوں۔ ان سے بات کرنے سے مجھے سکون ملا تھا کہ اب چاہے جو بھی ہو جائے، کم از کم میں نے انھیں خداحافظ تو کہہ دیا ہے۔ یہی بات مجھے چار برسوں تک سہارا دیتی رہی۔

وقت تو ضرور لگ گیا، لیکن آخر کار وہ دن آن پہنچا ہے جب میں ’خداحافظ‘ کو ’ہیلو‘ میں بدلنے آ رہا ہوں۔

Thursday, 28 April 2016

How to Install Solar System













Types of Solar Panels

Multi-crystalline (Poly crystalline) Solar Panels
poly crystalline cell contains many crystals. It has similar life span to the mono crystalline cell type, but it has lower efficiency and cost per watt.

Mono-crystalline Solar Panels
mono crystalline cell is made of a single crystal. Mono crystalline solar panels are high efficiency solar panels.






All Black

These are very large in sizes but less in output watts. All black solar panels are used in very hot areas because it high resistance against in temperature. These are cheap in rates as compare to Ploy and Mono Crystal.

How Much Watt Solar Panel We Need?

Example we want to power up 5 lights of 20 Watt and we need to use these 5 lights for 3 hours every day. Here first we get a total watt usage. P total = 20 * 5 = 100W. Than we multiply 100 with 3 hours. P daily = 100 * 3 = 300W. We are going to use 300 watt daily. Let us say we are going to have complete sunshine 6 hours each day. Now we divide 300W with 6 hours, so we will get hourly power charge that we need P hourly = 300 / 6 = 50W. So we need a 50 watt solar panel. But it is recommended to always choose a panel some bigger then we need. Because when solar panel charge the battery so it is wasting some power on charging too.


Quality of Solar Panels
We recommend to buy solar panels of good quality. If you is really looking for panels that can be used in 20-25 years without have massive loss so we recommend you to buy quality solar panels. Because normal quality solar panels have a about 1% or less yearly loss of energy each year. So it mean if you use them 20 years so they will have a loss percent of 20%. So a 100 Watt panel will produce 20% less then what it produced when it was new. 100 watt minus 20 it is equal 80 watt. After a 20 years usage in direct sunshine a solar panel will produce 80 watt.

If a panel just begin to produce less power just after 1-2 years usage so it is not a good quality. You have just loss your money on bad panels.


Charge controllers

Charge controller is used to charge batteries from Solar Panels. Solar panels normal give 15-17 volt, charge controller converts that to 12-14 volt and charges battery. Battery often need a higher voltage than it already have to charge the battery. Charge controller prevents batteries to be over charged. And stops to charge when battery is fully charged. And it will give longer life for battery. You can also use blocking diode instead of charge controller. But there are some negative effects of blocking diodes. If you do not use charge controller and just use a blocking diode, so battery can be over charged and damaged. If you is using big solar panel system so it is better to have an advanced charge controller. That gives you complete statistics of how much volt and ampere it have charged battery. Advanced charge controllers also show you how much ampere is on batteries. Charge controllers can automatic disconnect battery if it is going to be empty.

For bigger systems like tube-well or water pumping they are used high voltage charge controllers, called MPPT (Maximum Power Point Tracker) charge controllers. MPPT charge controller can convert dc-dc voltage. Example used in 24, 38, 48 volt systems. MPPT charge controllers are used with higher power panels like 135 watt and higher panels.

Solar Battery Storage


Normal Batteries
Batteries are very important resource in solar power system to store all the power. It is used normal car batteries. Normal batteries are cheap and good. Normal car batteries require some maintenance. The thing is you need to do is fill mineral free water or distilled water (Urdu. Taizab) after a period. You have to check the battery after each 6 months or earlier for level of distilled water. Cable connection needs to be clean and tightened. Many battery problems are caused by dirty and loose connections.

Maintenance Free Batteries
Maintenance free batteries do not require any kind of filling of acids. These batteries have a liftime of 1000 charges or some years. So you have to change battery after this time.

How much watt a battery can store?
It depends on battery size and how much Ah (Ampere hour) is a battery. Example if a battery is 65Ah so it can store 780W. We know a battery is 12v and we have 65Ah. P = E * I = 12v * 65 = 780W.

How to increase battery capacity?
By connecting to batteries in parallel it will increase capacity. We are showing you how to connect batteries in parallel on the picture under. You have to connect positive wire from 1st battery over to second battery and connect negative wire over to negative wire on second battery.

Parallel Connection

Series Connection


Solar Lights



This is information you need to know when using solar powered lighting system.When selecting lights we recommend you to select DC 12 volt lights. As high watt gives high light. And select energy saving lights. Because energy saving lights give you more light and uses less energy. As a sample a 11W energy saving bulb gives light like 60W.


How to connect lights?

Connect always DC lights in Parallel connection. We are not going deep in why to connect in parallel. A reason is voltage fall. See the picture under for wire connections. Do not connect wires in opposite directions if it is written on instructions for bulbs.



How much power do they use?
When 3 dc lights connected of 11 watt so Ptotal = P1 + P2 + P3. This mean total power = light1 + light2 + light3. Ptotal = 11 + 11 + 11 = 33W

Grid Tie Solar System

Solar Grid Tie Systems, or Grid Connected Systems, are connected to utility grids and feed power back into the grid. These systems consist of PV panels that are connected to the grid via a tie inverter. The power produced by the PV system can either supply electrical loads to local areas or be fed back into the grid when the PV system's output is greater than the load demand. When the PV system's output is less than the load demand (e.g. at night), energy is consumed by the local client from the utility grid. Solar grid tie system vary in size from residential to solar power stations.





This system is for energy saving only, reduces electricity bill, NOT FOR BACK-UP.
Panel Stand, DC Wire, Connectors etc not included in estimated price
Installation/Transportation Charges not included




Hybrid Solar System
Our hybrid systems work on both solar and grid electricity. During daytime, the loads are operated by solar energy. During nighttime, they are operated using the energy stored in solar batteries or on grid electricity. Batteries are charged by solar energy or grid energy or both. Our systems are modular and easily expandable. They also provide full UPS functionality. System Configuration, annual solar production, connected load, battery backup duration, and component details for our standard hybrid systems are shown on this page. Systems can be customized for higher levels of solar production and longer battery backup. System and component information may change at any time without notice.







Estimated price with Flooded Battery
Panel Stand, DC Wire, Connectors etc not included in estimated price
Installation/Transportation Charges not included.

Stand Alone Solar System

Standalone Solar Power Systems are completely independent from any electric utility grid. They are most often used in remote areas where electricity is not available or where the connection fees of the grid are higher than the cost of an alternative energy system. Standalone solar systems (also known as autonomous, or off grid systems) are used to collect and store solar energy to be used by household appliances. These systems typically generate from 100 Watts (very small systems) to 5 kilowatts (larger systems, multi family homes). During the day, the electricity generated is used to power the home and charge the batteries. At night, and during rainy days, all necessary power is provided by the batteries




Feel Free to Contact
Moeen Wattoo
0333-540-1122
0345-589-1122
mawattoo1122@gmail.com


Facebook Followers