’اپنے
ہی گاؤں میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں‘
صبا
اعتزاز
بی
بی سی اردو ڈاٹ کام، پاک پتن
اکستان
کے صوبہ پنجاب کے علاقے پاک پتن کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک تنگ سی گلی میں ماسٹر
نذیر کی سلائی کی دکان ہے جس کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے ’سمارٹ فیشن فار لیڈیز اینڈ
جینٹس‘۔
یہ
الفاظ ہر بارش کے ساتھ مدھم ہوتے جا رہے ہیں اور دکان میں اب سلائی کے کام کی جگہ بھینسوں
کا چارا رکھا جاتا ہے۔
ماسٹر
نذیر کا پورا نام ذوالفقار نذیر ہے اور پولیس کے مطابق وہ 2014 میں رائے ونڈ میں واقع
وزیر اعظم میاں نواز شریف کی رہائش گا پر مبینہ طور پر حملے کی کوشش کے دوران پولیس
مقابلے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تفتیشی
اہلکاروں کے مطابق ماسٹر نذیر کو 2010 میں پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر
ہونے والے بم دھماکے کا منصوبہ ساز بھی سمجھا جاتا ہے۔
پولیس
کی جانب سے عائد ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی اور گاؤں والے کہتے ہیں کہ
وہ آج تک سمجھ نہیں پائے کہ ایک شخص جو ان کے سامنے پلا بڑھا، کس طرح شدت پسندی کے
راستے پر چل نکلا۔
اس
گاؤں کے نمبردار کے مطابق دیہات میں کوئی گورنمنٹ سکول نہ ہونے کی وجہ سے ذوالفقار
کو لاہور کے ایک مدرسے میں پڑھنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔
’جب وہ یہاں سے گیا تھا تو بالکل ٹھیک تھا
، چند سال بعد واپس آیا تو داڑھی تھی اور اس کے خیالات بدلے ہوئے تھے۔‘
انھوں
نے بتایا کہ واپسی کے بعد اس کا ایک مدرسے کے قاری کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بڑھ گیا اور
اس کے مذہبی خیالات میں کچھ سختی آنے لگی۔
’ہماری
مسجد میں کئی دہائیوں سے سب فرقوں کے لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن وہ اور ماسٹر شفیق گاؤں
میں الگ مسجد بنانے کے لیے چندہ اکھٹا کرنے لگے۔ جب مجھے یہ سب پتہ چلا تو میں نے اسے
گاؤں چھوڑنے کا کہہ دیا اور وہ پھر سے لاہور چلا گیا۔‘
نمبردار
نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ’وہ دہشت گردی کرتے ہوئے ہلاک ہوگیا ہے۔‘
جب
ذوالفقار کی ہلاکت ہوئی تو اس کی عمر 25 سال تھی اور ان کی بوڑھی والدہ اپنے تین پوتے
پوتیوں، ذوالفقار کی بیوی اور اپنی بیٹی کے ساتھ اب بھی اسی گاؤں میں مقیم ہیں۔
تاہم
ذوالفقار کے مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بات عام ہوتے ہی گاؤں والوں نے
ان سے منہ پھیر لیا ہے۔
ذوالفقار
کی والدہ کاکی اماں جب بھی اپنے حالات کا ذکر کرتی ہیں تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہیں۔
’میں
وہ بدنصیب ماں ہوں جس کے بیٹے کو گاؤں والوں نے یہاں دفنانے بھی نہیں دیا کہ وہ دہشت
گرد ہے۔ اس کے بچوں کو پہلے کوئی پڑھایا بھی نہیں کرتا تھا کہ یہ دہشت گرد کے بچے ہیں،
ان معصوموں کا کیا قصور ہے؟‘
کاکی
اماں کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا گندم بیچ کر اس پیسے سے لاہور میں دکان کھولنے کی غرض
سے گیا تھا اور سلائی کڑھائی کے کام سے بھی گھر والوں کی روزی روٹی چلا رہا تھا ۔
’لاہور میں اسے کون لوگ ملے، کس راستے پر لے گئے اس کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔‘
ذوالفقار
کی والدہ کو رائےونڈ میں پیش آنے والے واقعات کا تب اندازہ ہوا جب سکیورٹی اداروں کے
اہلکار ان کے گاؤں پہنچے۔ گھر گھر تلاشی کا عمل شروع ہوا اور ان کا دوسرا بیٹا جو گاؤں
میں کاشتکاری کرتا تھا، اسے بھی گرفتار کیا گیا۔
’میں ادھر سے ادھر پاگلوں کی طرح بھاگتی
رہی کہ آخر ہوا کیا ہے؟ پانچویں یا چھٹے دن اخبار سے پتہ چلا کہ یہ سب کیوں ہوا اور
میرا بیٹا دہشت۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں اسے؟ وہ کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔‘
کاکی
اماں نے اس سے پہلے دہشت گردی کا لفظ سنا ہی نہیں تھا اور اب بھی ان کے زبان پر یہ
لفظ شاید بیٹھ نہیں پایا ہے۔
شدت
پسند افراد کے گھر والوں کو بھی ہمارا سماج شک یا نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کاکی
اماں اور ان کے خاندان کو بھی اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ پُشتوں سے جو گاؤں ان کا
ہے وہ اس میں اب خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔
کاکی
اماں نے بتایا ’دنیا ہمیں طعنے دیتی ہے۔ ہم اب سر جھکا کر چلتے ہیں۔ لوگ کہتے ہین ان
کو پتہ نہیں کتنے پیسے ملے ہوں گے۔ ان کا بیٹا یہ کام کرتا تھا ِ لیکن ہم یہاں مزدوری
کرتے پھر رہے ہیں اور اپنے گھر کی روٹی پورے کر رہے ہیں۔‘
ان
کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو خاندان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو تعلیم
حاصل کرنے کی غرض سے شہر بھیجا تھا اور اسی غربت کی وجہ سے ہی اس نے شہر میں کاروبار
بھی شروع کیا گیا تھا، لیکن غربت ویسی ہی رہی، ان کا بیٹا ان سے چھن گیا۔
’اگر
مجھے پتہ ہوتا تو میں کیوں اسے وہاں بھیجتی، اپنا بیٹا کیوں گنواتی، یہ واقعہ ہمارے
لیے موت ہے، ہم اس کے ساتھ ہی مر گئے ہیں، ختم ہو گئے ہیں۔‘
No comments:
Post a Comment