Tuesday, 19 April 2016

Chotu Gang (چھوٹو گینگ کیا ہے)

چھوٹو گینگ کیا ہے؟

پاکستانی فوج صوبہ پنجاب میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے جنگی ہیلی کاپٹروں کا استعمال کر رہی ہے۔ اس آپریشن میں تیزی تب آئی جب اس گروہ نے 20 سے زائد پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔

٭چھوٹو گینگ کیا ہے؟

یہ ڈاکوؤں کا ایک گروہ ہے جو دریائے سندھ کے ایک طرف جنوبی پنجاب کے ایک دورافتادہ علاقے میں موجود ہے۔
یہ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور ساتھ واقع صوبہ سندھ کے ڈیڑھ سو کلومیٹر تک کے کچے کے علاقے کے درمیان موجود درجنوں گروہوں میں سے ایک سرکردہ گروہ ہے۔


اس گروہ کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو ہیں جو اس خطے میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے سرگرم ہیں۔

گینگ کے کارندوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زائد ہے جن کا ذریعۂ معاش اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، بھتہ خوری اور ڈکیتیاں ہے۔

اب چھوٹو گینگ میں لنڈ سیکھانی ڈیرہ غازی خان کے خالد اور اسحاق گینگ اور مظفر گڑھ کا جاکھا گینگ بھی شامل ہو چکے ہیں۔
یہ ڈاکو انتہائی تربیت یافتہ ہیں اور پولیس مقابلوں میں شدید مزاحمت کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

٭چھوٹو جزیرہ: جہاں گینگ رہتا ہے

کچا جمال اور کچا مورو کے علاقے میں جس جزیرے پر ڈاکوؤں کا گروہ موجود ہے وہ سنہ 2010 کے سیلاب کے بعد دریائے سندھ میں ابھرا۔ اس کی لمبائی دس کلومیٹر اور چوڑائی تین کلومیٹر ہے۔ اسے چھوٹو گینگ کی مناسبت سے چھوٹو جزیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ علاقہ ویسے تو ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کا حصہ ہے تاہم یہاں سے رحیم یار خان کی سرحد بہت قریب ہے۔

یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ ہے۔

یہ علاقہ مختلف عمل داریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جایا کرتی ہے۔
چھوٹو جزیرہ گھنے جنگل سے ڈھکا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں موجود ڈاکوؤں نے اسے اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔

اگر دریا کے کنارے سے کشتی کے ذریعے اس جزیرے تک پہچنے کی کوشش کی جائے تو ایک کلومیٹر تک پانی میں سفر کرنا پڑتا ہے۔

جزیرے پر چھوٹو گینگ نے بھینسیں پال رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس گندم کا وافر ذخیرہ بھی موجود ہے۔
فوج چھوٹو گینگ کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے جنگی ہیلی کاپٹروں کا استعمال کر رہی ہے

٭فوج نے جارحانہ کارروائی کیوں شروع کی؟

اس علاقے کے دُور دراز ہونے کی وجہ سے ڈکیتی کی وارداتیں روایتی طور پر کم توجہ حاصل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مزاری قبیلے کے رہنما ڈکیتوں پر جوابی حملہ کر کے غلبہ حاصل کر لیتے ہیں جس سے حکومت کے لیے دردِ سر پیدا ہو جاتا ہے۔

اسی وجہ سے سنہ 2005 میں چھوٹو گینگ نے خود کو اس وقت کافی دباؤ میں پایا تھا جب انھوں نے قریبی انڈس ہائی وے سے 12 چینی انجینیئروں کو اغوا کیا بعد میں انھوں نے ان انجینیئروں کو بغیر کسی تاوان کے رہا کر دیا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کی ڈاکوؤں کے خلاف تازہ کارروائی چینیوں کے خدشات دُور کرنے اور انڈس ہائی وے کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔

انڈس ہائی وے اس علاقے سے گزرتی ہے اور یہ وہ 46 ارب ڈالر کے اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے اہم گزرگاہ ہے جو چین نے پاکستان کی گوادر بندرگاہ اور شمال مغربی چین کو آپس میں جوڑنے کے لیے پیش کیا ہے۔

٭اسلحہ
چھوٹو گینگ کے پاس جدید اسلحہ بڑی مقدار میں موجود ہے جس میں طیارہ شکن توپین بھی شامل ہیں۔ ماضی میں یہ گروپ راکٹ لانچر، جی تھریز، لائٹ مشین گن، سب مشین گن، دستی بم اور ٹینک شکن باروری سرنگیں بھی استعمال کرتا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستانی اخبار ’جنگ‘ کے ملتان میں نامہ نگار ظفر اہیر سے ٹیلیفون انٹرویو کے دوران چھوٹو نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی ساختہ ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ البتہ انھوں نے کہا کہ یہ ہتھیار افغانستان سے حاصل کیے گئے تھے۔

اہیر سنہ 2006 میں چھوٹو سے اُن کے جزیرے میں واقع ٹھکانے میں ملے تھے۔

اُن کا کہنا ہے کہ گینگ کے کارندے بھاری اور ہلکے دونوں طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے، جن میں طیارہ شکن بندوقیں بھی شامل تھیں جو اُن کے مطابق چھوٹو کے خیموں کے قریب نصب تھیں۔

پولیس نے گذشتہ کئی ہفتوں سے کچا مورو اور کچا جمال کا محاصرہ کررکھا ہے۔

18 دن کی کارروائی کے دوران ڈاکوؤں نے سات پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا جب کہ 24 کو یرغمال بنا لیا۔ پولیس کے مطابق اب تک آپریشن میں سات ڈاکو ہلاک ہوچکے ہیں۔ جن میں چھوٹو کا دست راست پہلوان عرف پلو بھی شامل ہے۔
یرغمال اہلکاروں کی رہائی کے لیے مقامی قبائل کے ذریعے گینگ سے مذاکرات کیے جاتے رہے ہیں۔

جب سے فوج اس جگہ پہنچی ہے تب سے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی خبریں آ رہی ہیں لیکن اب تک زمینی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چھوٹو گینگ کی جانب سے یرغمالوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
کنارے کے ساتھ آباد شہری آبادی بھی اس لڑائی کی زد میں آ سکتی ہے، تاہم وہاں کے باسیوں نے کئی بار کے انتباہ کے باوجود اب تک علاقے کو مکمل طور پر خالی نہیں کیا۔

چھوٹو گینگ نے گذشتہ برس مئی میں بھی سات پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے یرغمال بنایا تھا جس کےبعد گینگ کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس میں ہیلی کاپٹرز سے شیلنگ بھی کی گئی۔

اس آپریشن میں اغوا کیے گئے اہلکار تو بازیاب کروا لیے گئے تھے تاہم ڈاکووں کو پسپا نہیں کیا جاسکا تھا۔

٭چھوٹو کون ہے؟

لفظ چُھوٹو ایک عرفیت ہے جس کا مطلب ہے ایک چھوٹا لڑکا۔

غلام رسول کو یہ نام بابا لونگ کی جانب سے دیا گیا تھا جو چھوٹو سے پہلے اس گروہ کے سرغنہ تھے۔ چھوٹو نےگروہ میں تب شمولیت اختیار کی تھی جب وہ بمشکل نوجوان تھے۔ اُن کی کہانی اس علاقے کے کسی بھی قبائلی نوجوان جیسی روایتی کہانی ہے۔
چھوٹو تحصیل روجھان کا رہائشی ہے اور اس کا تعلق باخارانی ملک قبیلے سے ہے۔

اس دشوار گزار اور غریب علاقے کو جاگیرداروں کی سرزمین اور خاندانی غیرت کے تنازعات والا علاقہ کہا جاتا ہے۔
یہ سیاسی جاگیرداروں کے اثر و رسوخ والا علاقہ ہے جن پر پولیس اور ڈاکوؤں دونوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پیسے دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

چھوٹو کا خاندانی پیشہ زمینداری ہے اور تحصیل روجھان میں اس کا زرعی رقبہ بھی موجود ہے۔
چھوٹو ایک چھوٹے سے کسان کے بیٹے تھے۔ وہ سنہ 1988 میں جب وہ 13 سال کے تھے تو کشمور میں ٹرک اڈوں پر قائم چائے خانوں میں بیراگیری کرتے تھے۔

انھوں نے جنگ کے نامہ نگار کو انٹرویو میں بتایا کہ اُن کے ایک بھائی قبائلی جھگڑے کی وجہ سے جیل گئے اور اُن کے والد اور دوسرے بھائی گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار ہو گئے۔

ایک سال یا اُس سے کچھ عرصے کے بعد انھیں بھی پولیس اہلکاروں کی جانب سے رشوت دینے سے ناکامی پر چوری کے ایک ’جُھوٹے‘ مقدمے میں ملوث کر دیا گیا۔

اُن کی غیر موجودگی میں اُن کی لگ بھگ 12 ایکڑ پر مشتمل خاندانی اراضی پر اُن کے پڑوسیوں نے قبضہ کر لیا۔
جب وہ دو سال بعد جیل سے واپس آئے انھوں نے اپنی خاندانی اراضی واپس حاصل کرنے کے لیے بابا لونگ کے گروہ میں شمولیت اختیار کر لی اور بعد میں اُن کے بھائی بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے۔

غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف اغوا برائے تاوان قتل ڈکیتیوں پولیس مقابلوں پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے اور اسلحہ چھیننے اور بھتہ لینے کے 95 مقدمات درج ہیں جبکہ ان کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر ہے۔

شمائلہ جعفری، الیاس خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام
----------------------------------------------------------------------
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
(قابل اجمیری)

No comments:

Post a Comment

Facebook Followers