Thursday, 19 May 2016

انسانی بے بسی، اپنی ہی گاوں میں اجنبی بن کے رہ گئے


اپنے ہی گاؤں میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں
صبا اعتزاز
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پاک پتن

اکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے پاک پتن کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک تنگ سی گلی میں ماسٹر نذیر کی سلائی کی دکان ہے جس کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے ’سمارٹ فیشن فار لیڈیز اینڈ جینٹس‘۔
یہ الفاظ ہر بارش کے ساتھ مدھم ہوتے جا رہے ہیں اور دکان میں اب سلائی کے کام کی جگہ بھینسوں کا چارا رکھا جاتا ہے۔


ماسٹر نذیر کا پورا نام ذوالفقار نذیر ہے اور پولیس کے مطابق وہ 2014 میں رائے ونڈ میں واقع وزیر اعظم میاں نواز شریف کی رہائش گا پر مبینہ طور پر حملے کی کوشش کے دوران پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تفتیشی اہلکاروں کے مطابق ماسٹر نذیر کو 2010 میں پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے کا منصوبہ ساز بھی سمجھا جاتا ہے۔
پولیس کی جانب سے عائد ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی اور گاؤں والے کہتے ہیں کہ وہ آج تک سمجھ نہیں پائے کہ ایک شخص جو ان کے سامنے پلا بڑھا، کس طرح شدت پسندی کے راستے پر چل نکلا۔
اس گاؤں کے نمبردار کے مطابق دیہات میں کوئی گورنمنٹ سکول نہ ہونے کی وجہ سے ذوالفقار کو لاہور کے ایک مدرسے میں پڑھنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔
جب وہ یہاں سے گیا تھا تو بالکل ٹھیک تھا ، چند سال بعد واپس آیا تو داڑھی تھی اور اس کے خیالات بدلے ہوئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ واپسی کے بعد اس کا ایک مدرسے کے قاری کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بڑھ گیا اور اس کے مذہبی خیالات میں کچھ سختی آنے لگی۔
’ہماری مسجد میں کئی دہائیوں سے سب فرقوں کے لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن وہ اور ماسٹر شفیق گاؤں میں الگ مسجد بنانے کے لیے چندہ اکھٹا کرنے لگے۔ جب مجھے یہ سب پتہ چلا تو میں نے اسے گاؤں چھوڑنے کا کہہ دیا اور وہ پھر سے لاہور چلا گیا۔‘
نمبردار نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ’وہ دہشت گردی کرتے ہوئے ہلاک ہوگیا ہے۔
جب ذوالفقار کی ہلاکت ہوئی تو اس کی عمر 25 سال تھی اور ان کی بوڑھی والدہ اپنے تین پوتے پوتیوں، ذوالفقار کی بیوی اور اپنی بیٹی کے ساتھ اب بھی اسی گاؤں میں مقیم ہیں۔
تاہم ذوالفقار کے مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بات عام ہوتے ہی گاؤں والوں نے ان سے منہ پھیر لیا ہے۔
ذوالفقار کی والدہ کاکی اماں جب بھی اپنے حالات کا ذکر کرتی ہیں تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہیں۔
’میں وہ بدنصیب ماں ہوں جس کے بیٹے کو گاؤں والوں نے یہاں دفنانے بھی نہیں دیا کہ وہ دہشت گرد ہے۔ اس کے بچوں کو پہلے کوئی پڑھایا بھی نہیں کرتا تھا کہ یہ دہشت گرد کے بچے ہیں، ان معصوموں کا کیا قصور ہے؟‘

کاکی اماں کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا گندم بیچ کر اس پیسے سے لاہور میں دکان کھولنے کی غرض سے گیا تھا اور سلائی کڑھائی کے کام سے بھی گھر والوں کی روزی روٹی چلا رہا تھا ۔ ’لاہور میں اسے کون لوگ ملے، کس راستے پر لے گئے اس کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔
ذوالفقار کی والدہ کو رائےونڈ میں پیش آنے والے واقعات کا تب اندازہ ہوا جب سکیورٹی اداروں کے اہلکار ان کے گاؤں پہنچے۔ گھر گھر تلاشی کا عمل شروع ہوا اور ان کا دوسرا بیٹا جو گاؤں میں کاشتکاری کرتا تھا، اسے بھی گرفتار کیا گیا۔
میں ادھر سے ادھر پاگلوں کی طرح بھاگتی رہی کہ آخر ہوا کیا ہے؟ پانچویں یا چھٹے دن اخبار سے پتہ چلا کہ یہ سب کیوں ہوا اور میرا بیٹا دہشت۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں اسے؟ وہ کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔
کاکی اماں نے اس سے پہلے دہشت گردی کا لفظ سنا ہی نہیں تھا اور اب بھی ان کے زبان پر یہ لفظ شاید بیٹھ نہیں پایا ہے۔
شدت پسند افراد کے گھر والوں کو بھی ہمارا سماج شک یا نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کاکی اماں اور ان کے خاندان کو بھی اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ پُشتوں سے جو گاؤں ان کا ہے وہ اس میں اب خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔


کاکی اماں نے بتایا ’دنیا ہمیں طعنے دیتی ہے۔ ہم اب سر جھکا کر چلتے ہیں۔ لوگ کہتے ہین ان کو پتہ نہیں کتنے پیسے ملے ہوں گے۔ ان کا بیٹا یہ کام کرتا تھا ِ لیکن ہم یہاں مزدوری کرتے پھر رہے ہیں اور اپنے گھر کی روٹی پورے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو خاندان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہر بھیجا تھا اور اسی غربت کی وجہ سے ہی اس نے شہر میں کاروبار بھی شروع کیا گیا تھا، لیکن غربت ویسی ہی رہی، ان کا بیٹا ان سے چھن گیا۔
’اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں کیوں اسے وہاں بھیجتی، اپنا بیٹا کیوں گنواتی، یہ واقعہ ہمارے لیے موت ہے، ہم اس کے ساتھ ہی مر گئے ہیں، ختم ہو گئے ہیں۔‘

Salman Taseer's Abducted Story

دو سڑکوں کے درمیان ساڑھے چار سال کا مشکل سفر
شہباز تاثیر
لاہور، پنجاب
(پنجاب کے سابق مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو 26 اگست 2011 کو لاہور سے اغوا کیا گیا تھا اور تقریباً ساڑھے چار سال بعد آٹھ مارچ 2016 کو ان کی رہائی عمل میں آئی تھی)



26 اگست 2011
ایک عام سا دن، دفتر جانے کے لیے وہی پرانا راستہ اور ذہن میں گردش کرتے ہوئے وہی عام سے خیالات۔ سامنے ایک گاڑی راستہ روکے ہوئے ہے۔ میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ جب وہ میری کنپٹی پر پستول رکھتے ہیں تب کہیں جا کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری دنیا تہہ و بالا ہونے کو ہے۔
آٹھ مارچ 2016
یہ کوئی عام دن نہیں ہے۔ میں جس موٹر سائیکل پر سفر کر رہا ہوں وہ پکی سڑک پر چڑھ جاتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ یہ راستہ آزادی کی منزل کی طرف جاتا ہے۔ دو سڑکیں اور ان کے درمیان ساڑھے چار سال کا لمبا، مشکل سفر۔
اِغوا ہونے کے تیسرے ماہ تک میں جان چکا تھا کہ یہ کوئی عام اِغوا برائے تاوان نہیں۔ میرے اغوا کارروں نے پنجاب کے سابق گورنر کے بیٹے کو اٹھا کر ایک پوائنٹ سکور کیا تھا۔ یہاں پیسے سے کہیں کچھ بڑھ کے داؤ پر لگا ہوا تھا۔ وہ مختلف جیلوں میں قید اپنے ’بھائیوں‘ کی رہائی چاہتے تھے۔
مجھے معلوم تھا کہ راستہ کٹھن ہو گا اور میری رہائی میں وقت لگے گا۔ ایسے تاریک لمحات میں آپ بڑی آسانی سے مایوسی کے سمندر میں ڈوب سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی بات سے جوڑے رکھیں۔ میرے لیے یہ بات میرے والد کی یادیں تھیں۔ ان کی بہادری، ارادوں کی پختگی اور اپنی سوچ کی خاطر ڈٹ جانا۔ انھوں نے ایک آمر کے خلاف تشدد اور قیدِ تنہائی برداشت کی اور اس صورت حال سے مزید مضبوط بن کر نکلے۔
میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ اگر وہ سرخرو ہو کر نکل سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔ پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میرا خاندان مجھے واپس لانے کے لیے سب کچھ کرے گا۔ میرے گھر والے امید کا دامن تھامے رہیں گے۔ اس کے علاوہ میرا ایمان تھا اور قرآن مجید۔ اس میں بہت تسکین تھی، آرام تھا، جس نے میری سوچ کو تقویت پہنچائی کہ خدا میرے ساتھ ہے اور آزادی کا ایک دن ضرور آئے گا۔
جسمانی اذیت چوتھے ماہ شروع ہوئی۔ میرے ازبک اغوا کندگان کو ایذارسانی میں عجیب مزا ملتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں زیادہ عبادت کرتا اور اس سے راحت پاتا تھا۔ میں دعا کرتا تھا کہ اس دن اور اس کے اگلے دن درد کی دھار کند ہو جائے۔ میں درد کو اس وقت تک برداشت کرنے کی دعا کرتا تھا جب تک خود درد پہنچانے والے کمزور نہ پڑ جائیں۔ میں اپنے والد کے بارے میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جسمانی درد کو اپنی روح کو متاثر نہ کرنے دیں تو یہ محض سطحی ہوتا ہے۔ میں نے اسی خیال کا دامن تھامے رکھا اور امید کبھی نہیں ہاری۔ امید کا دامن آپ کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔

میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کس چیز کو برداشت کرنا زیادہ مشکل تھا، جسمانی مارپیٹ یا پھر وہ ذہنی داؤ پیچ جو وہ میرے ساتھ لڑاتے تھے۔ وہ مجھے میرے خاندان کی ٹویٹس دکھاتے اور کہتے کہ یہ دیکھو وہ تمھیں بھول گئے ہیں یا تمھارے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں، اور دیکھو کہ تمھاری والدہ کو نشانہ بنانا کتنا آسان ہے۔
وہ ہمیشہ میرے دماغ میں شک کے بیج بونے کی کوشش کرتے کہ کوئی میرے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور میری رہائی کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے میری بیوی کی کعبے میں تصویر کو منافقت کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرا کچھ خیال نہیں ہے۔ میری بہن کی نیلسن منڈیلا کی موت پر پوسٹ کو اس طرح پیش کیا کہ دیکھو وہ ایک کافر کی پوجا کرتی ہے۔ میرے بھائی کی ایک سماجی تقریب میں تصویر سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ تمھارا خاندان کتنی بےراہ روی کا شکار ہے۔
تاہم انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ سب باتیں مجھے مزید تقویت بخشتی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا خاندان ٹھیک ہے، مجھے معلوم تھا کہ وہ اور کئی اور لوگ میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں اور مجھے ہرگز نہیں بھولے۔
اور پھر میرے اندر نیلسن منڈیلا کی ’آزاد سپرٹ‘ کو اپنانے کا عزم تھا۔ میں نے عہد کیا کہ میں بھی ایک نہ ایک دن ان کی طرح آزادی حاصل کر لوں گا۔
قید تنہائی، اکیلا پن، شک اور اضطراب ذہن پر عجیب اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ آپ اپنے ذہنی توازن پر شک کرنے لگتے ہیں۔ وہ چہرے جنھیں آپ پیار کرتے ہیں دھندلے پڑنے لگتے ہیں۔ وہ آوازیں جو آپ اکثر سنا کرتے تھے، بھولنے لگتی ہیں لیکن یادوں کا اپنا ایک جادو ہے۔ یہ زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہیں۔ میں گھر نہیں جا سکتا تھا، لیکن گھر کو تو اپنے پاس بلا سکتا تھا۔ وہ جگہیں جہاں میں جایا کرتا تھا وہ میری یاد میں آ کر اور پرمسرت ہو جاتی تھیں۔ میں ان پرسکون جگہوں پر رہنے والے لوگوں سے دھیمی دھمی گفتگو کیا کرتا تھا جو اندھیرے کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔
لیکن آپ شور شرابہ کرنے والے دوستوں کے ساتھ دھیمی دھیمی گفتگو نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں انھیں ایک ایک کر کے خیالوں میں لاتا تھا، اور اپنے آپ کو ایک سٹینڈ اپ کامیڈین تصور کر کے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزاحیہ بات چیت کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ اس مشق کی وجہ سے مجھے اپنے ماضی کا سامنا کرنے میں آسانی ہو جاتی تھی۔
ان تمام برسوں میں کوئی 30 ماہ ایسے تھے جس میں میرا بیرونی دنیا سے ہفتہ وار بغیر کسی نگرانی کے ایک عجیب و غریب قسم کا رابطہ ہوتا تھا۔ میرا محافظ میری طرح تھا، مانچسٹر یونائیٹڈ کا دلدادہ۔ وہ ہر دوسرے ہفتے ایک ریڈیو چھپا کر میرے کمرے میں لے آتا اور ہم مل کر کمنٹری سنتے۔
اس کے نزدیک یہ ایک لطف انگیز گناہ تھا کیونکہ ان کے مطابق کھیلوں میں حصہ لینا اور سننا دونوں حرام تھے۔ میرے لیے وہ دنیا کی جانب کھلنے والی کھڑکی تھی۔ ایک ایسی دنیا جہاں ذہنی توازن کھو دینا انتہائی آسان تھا، مین یونائیٹڈ کی خبریں مجھے ذہنی توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی تھیں۔ میں اپنے آپ سے کہتا کہ ’تم مین یونائیٹڈ کے واحد مداح ہو گے جو اس طرح کی صورتِ حال میں گھرا ہوا ہے۔ وہ صرف تمھارے لیے میچ جیت رہے ہیں۔
کافی عرصے بعد قدرت نے ایک ڈرامائی چال چلی اور مین یونائیٹڈ کا وہ خفیہ مداح خود قیدی بن گیا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا: ’میں نے ہمیشہ تمھارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔‘ میرے منہ سے نکلا، ’اچھا؟۔۔۔ تمھی تو ہو جس نے ہر روز مجھ پر میری زندگی کا دروازہ بند کیا تھا۔
وہ دوسری جانب دیکھنے لگا اور مجھے نہیں لگتا کہ میری بات اس کی سمجھ میں آئی تھی۔
ماضی میں جھانکتے ہوئے میں دیکھ سکتا ہوں کہ میں ہمیشہ آزاد تھا۔ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا آپ کو کبھی قید نہیں کر سکتا۔ وہ میری زندگی مشکل بنا سکتے تھے لیکن جب تک میں برداشت کر سکتا تھا، میں آزاد تھا۔ ۔ مجھے معلوم تھا کہ میں خدا کے ہاتھوں میں ہوں، نہ کہ ان کے ہاتھ میں۔ اور خدا نے میرا خیال معجزاتی طور پر ہمیشہ برقرار رکھا۔ ڈرون، بیماری، گولی، جسمانی تشدد، رہائش کے ناگفتہ بہ حالات، جھڑپیں، افغان طالبان کا ازبکوں کو اکھاڑ پھینکنا، اسی نے ان سب سے مجھے گزارا۔
میں گھر واپس آ چکا ہوں اور اب یہ میری دنیا ہے۔ میں اب بغیر کسی کے خوف کے معمول کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں لیکن بہت سی اہم چیزیں جوں کی توں ہیں۔ میں اپنی بیوی، والدہ، بہن اور بھائی کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی از سرِنو تعمیر کرنے کے لیے انھی کی ضرورت ہے۔
دنیا کا ایک مضبوط حصہ دوسروں کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت، سچائی کی خاطر اٹھ کھڑا ہونے اور انسانی روح کی آزادی کی خوشی منانا ہے۔ اس لیے میری بات علی حیدر گیلانی اور دوسرے تمام قیدی سنیں۔ آپ کو زیادہ دن پابند سلاسل نہیں رکھا جا سکتا اور ایک نہ ایک دن آپ واپس لوٹیں گے۔

ساری زندگی تند و تلخ سوچوں میں گزاری جا سکتی ہے کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ساتھ جو برے حالات پیش آتے ہیں ان میں سے بہت سوں کے ذمہ دار ہم نہیں ہوتے، بلکہ اس کا سبب دوسروں کی لالچ، بدنیتی اور بے رحمی بھی ہو سکتے ہیں۔ شاید اس سب کے پیچھے کوئی آفاقی مقصد موجود ہے۔ میں نہیں جانتا، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ حالات کا سامنا کیسے کرتے ہیں، آپ بدقسمتی سے کس آن بان سے نمٹتے ہیں، مشکلات کا مقابلہ کس مضبوطی اور حوصلے سے کرتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہی چیزیں ہیں جنھیں خدا دیکھتا اور ان کی بنیاد پر فیصلے صادر کرتا ہے۔ ممتحن انھی سوالوں کے جوابات دیکھتا ہے اور ان کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بنیاد پر میرے نمبر ٹھیک آئیں گے۔ کم از کم علامات سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔
ذرا سوچیے۔۔۔29 فروری کی صبح جب ایک افغان بزرگ مجھے رہا کرنے کے لیے قیدخانے کا دروازہ کھول رہے تھے، تو اسی وقت سینکڑوں میل دور ایک اور زندان کا دروازہ کھولا جا رہا تھا اور جلاد میرے والد کے قاتل کو پھانسی دینے کی تیاریاں کر رہا تھا۔
یہ مارچ کا وہ غیر معمولی دن تھا جب میں ایک پکی سڑک پر سفر کر رہا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ اس لمحے کے بارے میں سوچتا جا رہا تھا جب میں نے قید کے چھ ماہ بعد اپنی بیوی اور ماں سے بات کی تھی۔
مجھے کہا گیا تھا کہ مجھے گولی ماری جانے والی ہے اس لیے میں خدا حافظ کہہ لوں۔ ان سے بات کرنے سے مجھے سکون ملا تھا کہ اب چاہے جو بھی ہو جائے، کم از کم میں نے انھیں خداحافظ تو کہہ دیا ہے۔ یہی بات مجھے چار برسوں تک سہارا دیتی رہی۔

وقت تو ضرور لگ گیا، لیکن آخر کار وہ دن آن پہنچا ہے جب میں ’خداحافظ‘ کو ’ہیلو‘ میں بدلنے آ رہا ہوں۔

Facebook Followers