Mulala’s Diary Part-5
مُلالہ
یوسف زئی کی ڈائری
(پانچویں قسط)
ڈر ہے
سکول ہمیشہ کیلیے بندنہ ہوجائے
سوات
میں طالبان نے پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگادی ہے۔ اس صورتحال
میں طالبات پر کیا گزر رہی ہے، بی بی سی ارود ڈاٹ کام ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ
طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کررہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر
وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی پانچویں کڑی:
جمعہ
، اکتیس جنوری، میں شٹل کاک پہننے سے انکار کر دیا
|
سوات
کی جنگ سے ہم نےصرف اتنا فائدہ اٹھایا کہ ابو نے زندگی میں پہلی مرتبہ ہم سب گھر
والوں کو مینگورہ سے نکال کر مختلف شہروں میں خوب گھمایا پھرایا۔ہم کل اسلام آباد
سے پشاور آگئے، وہاں پر ہم نے اپنے ایک رشتہ دارکے گھر میں چائے پی اوراس کے بعد
ہمارا ارادہ بنوں جانے کا تھا۔
میرا
چھوٹا بھائی جس کی عمر پانچ سال ہے ہمارے رشتہ دار کے گھر کے صحن میں کھیل رہا
تھا۔ابو نے جب اسے دیکھ کر پوچھا کیا کر رہے ہو بچوڑی( بچے) تو اس نے کہا ’ مٹی سے
بابا قبر بنا رہا ہوں‘۔
بعد
میں ہم اڈے گئے اور وہاں سے ایک ویگن میں بیٹھ کر بنوں کے لیے روانہ ہوگئے۔ ویگن
پرانی تھی اور ڈرائیور بھی راستے میں ہارن بہت بجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب خراب
سڑک کی وجہ سے ویگن ایک کھڈے میں گرگئی تو اس وقت اچانک ہارن بھی بج گیا تو میرا
ایک دوسرا بھائی جو دس سال کا ہے اچانک نیند سے بیدار ہوا۔
وہ بہت
ڈرا ہوا تھا جاگتے ہی امی سے پوچھنے لگا’ ابئی( امی) ’کیا کوئی دھماکہ ہوگیا ہے۔’
رات کو
ہم بنوں پہنچ گئے جہاں پر میرے ابو کے دوست پہلے سے ہی ہمارا انتظار کررہے
تھے۔میرے ابو کے دوست بھی پشتون ہیں مگر ان کے گھر والوں کی زبان (بنوسی لہجہ)
ہمیں پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی ہے۔
ہم
بازار گئے پھر پارک ۔یہاں پر خواتین جب باہر نکلتی ہیں تو انہیں ٹوپی والا برقعہ (
شٹل کاک) لازمی پہننا ہوگا۔میری امی نے تو پہن لیا مگر میں نے انکار کردیا کیونکہ
میں اس میں چل نہیں سکتی ہوں ۔
سوات
کے مقابلے میں یہاں امن زیادہ ہے۔ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں بھی طالبان ہیں
مگر جنگیں اتنی نہیں ہوتیں جتنی سوات میں ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے یہاں
بھی لڑکیوں کے سکولوں کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی مگر پھر بھی سکول بند نہیں
ہوئے۔
سنیچر،
یکم فروری ، سوات کے سینکڑوں لوگوں کے خون کا حساب کون لےگا؟
|
بنوں
سے پشاور آتے ہوئے راستے میں مجھے سوات سے اپنی ایک سہیلی کا فون آیا۔ وہ بہت ڈری
ہوئی تھیں، مجھ سے کہنے لگی حالات بہت خراب ہیں تم سوات مت آنا۔ اس نے بتایا کہ
فوجی کارروائی شدید ہوگئی ہے اور مارٹر گولوں سے صرف آج سینتیس لوگ مرے ہیں۔
شام کو
ہم پشاور پہنچے اور بہت تھکے ہوئے بھی تھے۔میں نے ایک نیوز چینل لگایا تو وہ بھی
سوات کی بات کر رہا تھا۔اس میں لوگوں کو ہجرت کرتےہوئے دکھایا گیا ،لوگ پیدل جارہے
تھے مگر وہ خالی ہاتھ تھے۔
میں نے
سوچا کہ ایک وہ وقت تھا جب باہر سے لوگ تفریح کے لیے سوات آیا کرتے تھے اور آج
سوات کے لوگ اپنے علاقے کو چھوڑ کرجارہے ہیں۔
میں نے
دوسرا چینل لگایا جس پر ایک خاتون کہہ رہی تھی کہ ’ ہم شہید بے نظیر بھٹو کے خون
کا حساب لیں گے۔’ میں نے پاس بیٹھے ابو سے پوچھا کہ یہ سینکڑوں سواتیوں کے خون کا
حساب کون لے گا؟
پیر
، تین فروری ، سکول نہیں کھلے، میں بہت خفا ہوں
|
آج ہمارے
سکول کھلنے کا دن تھا۔صبح اٹھتے ہی سکول بند ہونے کا خیال آیا تو خفا ہوگئی۔اس سے
پہلے جب بھی سکول مقررہ تاریخ پر نہ کھلتا تو ہم خوش ہو جایا کرتے تھے۔ اس دفعہ
ایسا نہیں ہے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارا سکول طالبان کے حکم پر ہمیشہ کے لیے
بند نہ ہوجائے۔
ابو نے
بتایا کہ پرائیویٹ سکولوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف لڑکوں کے سکولوں
کو آٹھ فروری تک نہ کھولنے کا اعلان بھی کیا۔ابو نے بتایا کہ لڑکوں کے پرائیویٹ
سکولوں کے دروازوں پر یہ نوٹس لگایا گیا ہے کہ سکول نو فروی کو کھل جائیں گے۔
انہوں
نے بتایا کہ لڑکیوں کے سکول پر یہ نوٹس نہیں لگا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے سکول
اب نہیں کھلیں گے۔ (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment