Tuesday, 23 October 2012


Mulal’s Diary Part-6
مُلالہ یوسف زئی کی ڈائری (چھٹی قسط)

سوات میں لڑکوں کے سکول کھل چکے ہیں
سوات میں طالبان نے پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگادی ہے۔ اس صورتحال میں طالبات پر کیا گزر رہی ہے، بی بی سی اردو ڈاٹ کام ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی چھٹی کڑی:
سنیچر، سات فروری: بڑی داڑھیاں، لمبے بال اور توپ کے گولے


دوپہر کو میں اور میرا چھوٹا بھائی ابو کے ساتھ مینگورہ کے لیے روانہ ہوگئے۔امی لوگ پہلے ہی جاچکے تھے۔ بیس دن کے بعد مینگورہ جاتے ہوئے خوشی بھی ہو رہی تھی اور ساتھ میں ڈر بھی لگ رہا تھا۔ مینگورہ میں داخل ہونےسے پہلےجب ہم قمبر کےعلاقےسے گزر رہے تھے تو وہاں پرعجیب قسم کی خاموشی تھی۔
بڑی بڑی داڑھیوں اور لمبے لمبے بالوں والے کچھ لوگوں کے سوا وہاں پر کوئی اور نظر نہیں آیا۔ شکل و صورت سے یہ لوگ طالبان لگ رہے تھے۔ میں نے کچھ مکانوں کو بھی دیکھا جن پر گولوں کے نشانات تھے۔
مینگورہ میں داخل ہوئے تو وہاں پر بھی پہلے کی طرح رش نہیں تھا۔ ہم امی کے لیے تحفہ خریدنے شاہ سپر مارکیٹ گئے تو وہ بھی بند ہوگیا تھا حالانکہ پہلے یہ مارکیٹ دیر تک کھلی رہتی تھی۔ باقی دکانیں بھی بند ہوگئی تھیں۔ ہم نے امی کو مینگورہ آنے کا نہیں بتایا تھا کیونکہ ہم نے انہیں سر پرائز دینے کا فیصلہ کیا تھا۔گھر میں داخل ہوئے تو امی بہت حیران ہوئیں۔
اتوار،آٹھ فروری: یونیفارم، بستے اور جیومیٹری بکس دیکھ کر دکھ ہوا

میں نے جب اپنی الماری کھولی تو وہاں پر پڑے سکول کے یونیفارم، بستے اور جیومیٹری بکس کو دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ کل تمام پرائیویٹ سکولوں کے بوائز سیکشن کھل رہے ہیں۔ ہم لڑکیوں کی تعلیم پر تو طالبان نے پابندی لگا رکھی ہے۔
میں نے جیومیٹری بکس کھولا تو اس میں دو سو روپے پڑے تھے۔ یہ سکول کے جرمانے کے پیسے ہیں۔ جب کوئی لڑکی سکول نہ آتی یا کبھی لیٹ آتی تو ان سے جرمانے کے پیسے لینے کی ذمہ داری ٹیچر نے میری لگائی تھی۔
الماری میں ہمارے کلاس کے بورڈ کا مارکر بھی پڑا تھا جس سے بھی میں اپنے ساتھ رکھا کرتی تھی۔ سکول کی بہت سی باتیں یاد آئیں، سب سے زیادہ لڑکیوں کے آپس کے جھگڑے۔
میرے چھوٹے بھائی کا سکول بھی کل ہی کھل رہا ہے،اس نے بالکل ہوم ورک نہیں کیا ہے۔ وہ بہت پریشان ہے اور سکول جانا نہیں چاہ رہا۔ امی نے ویسے کل کرفیو لگنے کی بات کی تو اس نے پوچھا کیا کل سچ مچ کرفیو لگ رہا ہے۔امی نے جب ’ہاں‘ کہا تو اس نے خوشی سے ناچنا شروع کر دیا۔
منگل، دس فروری: محبوب یا غربت وطن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے


سوات میں لڑکوں کے سکول کھل چکے ہیں اور طالبان کی طرف سے پرائمری تک لڑکیوں کے سکول جانے سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد لڑکیوں نے بھی سکول جانا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے سکول میں پانچویں تک لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔
میرے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ آج اس کے کلاس کے انچاس میں سےصرف چھ بچے حاضر تھے جس میں سے صرف ایک طالبہ تھی۔اسمبلی میں بھی ستر کے قریب بچے تھے۔ ہمارے سکول کی کل تعداد سات سو ہے۔
آج ہماری ایک نوکرانی آئی تھی جو ہفتے میں ایک بار ہمارے کپڑے دھونے آتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھی۔ نوکرانی کا تعلق ضلع اٹک سے ہے لیکن وہ برسوں سے یہاں رہ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا: ’حالات بہت خراب ہیں اور میرے خاوند نے کہا ہے کہ تم واپس اٹک چلی جاؤ۔
انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں تک یہاں رہ کر سوات اب مجھے اپنا گھر جیسا لگ رہا ہے۔اپنے شہر اٹک جاتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ میں اپنا شہر چھوڑ کر ایک انجان شہر جا رہی ہوں۔ان کے ساتھ جو عورت آئی تھی وہ سوات کی ہے اور اس نے امی کو ایک پشتو ٹپہ سنایا۔
عالم پہ چار لہ مُلکہ نہ زی یا ڈیر غریب شی یا د یار لہ غمہ زی نا (ترجمہ: لوگ مرضی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتے، یا بہت زیادہ غربت یا پھر محبوب انہیں ترکِ وطن پر مجبور کرتی ہے۔)
بدھ ، گیارہ فروری: خود کش حملے کو پریشر ککر کا دھماکہ سمجھ لو

آج بھی سارا دن خوف میں گزرا۔ بوریت بھی بہت تھی۔ گھر میں اب ٹیلی ویژن بھی نہیں ہے۔ جب ہم سردیوں کی چھٹیوں میں بیس دن کے لیے مینگورہ سے باہر گئے تھے تو اس وقت ہمارے گھر میں چوری ہوگئی تھی۔ پہلے اس قسم کی چوریاں نہیں ہوتی تھیں لیکن جب سے حالات خراب ہوئے ہیں ایسے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔
شکر ہے ہمارے گھر میں نہ نقدی تھی اور نہ ہی سونا، میرا بریسلٹ اور پائل بھی غائب تھے لیکن بعد میں مجھے کہیں اور نظر آئے۔ شاید چور سونا سمجھ کر چرانا چاہ رہے تھے مگر بعد میں انہیں سمجھ آگئی ہوگی کہ یہ تو نقلی ہیں۔
مولانا فضل اللہ نے پچھلی رات ایف ایم چینل پر اپنی تقریر میں کہا کہ مینگورہ میں پولیس اسٹیشن پر جو خود کش حملہ ہوا تھا اس سے پریشر ککر کا دھماکہ سمجھ لو، اس کے بعد بڑا دیگ پھٹے گا اور پھر ٹینکر کا دھماکہ ہوگا۔
رات کو ابو نے سوات میں ہونے والے تمام واقعات سنائے۔ آج کل باتوں میں ہماری زبان پر فوجی، طالبان، راکٹ، گولہ باری، شیلنگ، مولانا فضل اللہ، مسلم خان، پولیس، ہیلی کاپٹر، ہلاک، زخمی جیسے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں۔
جمعرات، بارہ فروری: جمعہ کو خودکش حملے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے؟

کل ساری رات شدید گولہ باری ہوتی رہی۔اس حال میں بھی میرے دونوں بھائی سوئے ہوئے تھے مگر مجھے بالکل نیند نہیں آرہی تھی۔میں ایک دفعہ ابو کے پاس گئی وہاں آرام نہیں آیا پھر جاکر امی کے ساتھ لیٹ گئی۔ اس کے باوجود تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ جاتی لیکن پھر دوبارہ جاگ اٹھتی۔
اسی لیے صبح دیر سے جاگی۔ سہ پہر کو ٹیوشن پڑھانے والا ٹیچر آیا، اس کے بعد قاری صاحب نے آکر دینی سبق پڑھایا۔ شام تک بھائیوں کے ساتھ کبھی لڑ کر کبھی صلح کر کے کھیلتی رہی۔ ٹی وی نہ ہونے سے کچھ دیر تک کمپیوٹر پر گیم بھی کھیلتی رہی۔
جب طالبان نے کیبل پر پابندی نہیں لگائی تھی اس وقت میں سٹار پلس کے ڈرامے دیکھا کرتی تھی اس میں ’راجہ کی آئے گی بارات‘ والا ڈرامہ مجھے بہت پسند تھا۔ مجھےکامیڈی بھی بہت پسند ہے، پاکستانی چینل جیو کا مزاحیہ پروگرام’ ہم سب امید سے ہیں‘ کو بھی میں بہت شوق سے دیکھا کرتی تھی۔
آج جمعرات ہے یعنی شبِ جمعہ ہے اس لیے مجھے ڈر بھی بہت لگ رہا ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ اکثر دیکھا گیا ہے شبِ جمعہ یا جمعہ کے دن خود کش حملے زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودکش حملہ آور سمجھتا ہے کہ اسلامی طورپر یہ ایک مقدس دن ہے اور اس روز حملہ کرنے سے اسے ثواب زیادہ ملے گا۔ (فاری ہے)

No comments:

Post a Comment

Facebook Followers