Saturday, 31 January 2015

Monarchy in Saudi Arabia

سعودی کابینہ میں تبدیلیاں، سابق بادشاہ کے دو بیٹے بھی گورنر نہ رہے

سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ملک کی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا ہے۔
انھوں نے ملک میں انٹیلی جنس کے سربراہ اور قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری جنرل کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ مکہ اور ریاض کے گورنر بھی بدل دیے گئے ہیں۔
تاہم دفاع، تیل اور خارجہ جیسی اہم وزارتوں کے ذمہ داران اپنے عہدے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔


سعودی پریس ایجنسی کے مطابق جمعرات کو جاری ہونے والے شاہی فرمان کے مطابق خالد بن بندر بن عبدالعزیز کی جگہ جنرل خالد بن علی کو ملک کے خفیہ ادارے کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جن کا عہدہ وزیر کے برابر ہو گا۔
ایک اور فرمان میں سابق شاہ عبداللہ کے بھتیجے اور امریکہ میں 22 برس تک سعودی عرب کے سفیر رہنے والے شہزادہ بندر بن سلطان کو قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری جنرل اور بادشاہ کے مشیر کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

79 سالہ شاہ سلمان نے اپنے سوتیلے بھائی اور سابق بادشاہ کے دو بیٹوں کو بھی ان کی عہدوں سے سبک دوش کر دیا ہے۔ ان میں سے شہزادہ مشعال مکہ اور شہزاد ترکی دارالحکومت ریاض کے گورنر تھے۔
تاہم شاہ عبداللہ کے ایک اور بیٹے شہزادہ متعب نیشنل گارڈ کے انچارج وزیر کی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
شاہ سلمان کی 31 رکنی کابینہ میں ثقافت اور اطلاعات، سماجی امور، سول سروس، انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی وزارتوں پر نئے چہرے سامنے آئے ہیں۔
تاہم ملک کے وزیرِ تیل علی النعیمی، وزیرِ خارجہ شہزاد سعود الفیصل اور وزیرِ خزانہ ابراہیم العصاف کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق تیل کی وزارتِ پر علی نعیمی کو برقرار رکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صنعت کے لیے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔
خیال رہے کہ شاہ سلمان نے بادشاہ بننے کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ملک کا نیا وزیرِ دفاع مقرر کیا تھا۔
اس کے علاوہ 69 سالہ شہزادہ مقرن کو ولی عہد اور وزیرِ داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کو نائب ولی عہد بنانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا اور وہ شہزادوں کے نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔
اس وقت سعودی عرب اندرونی اور بیرونی طور پر کئی مشکلات کے گھیرے میں ہے اور شاہ سلمان کی اولین ترجیح ملک میں سکیورٹی کی صورت حال کو قائم رکھنا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل کے تحت شاہ عبداللہ کے برعکس بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر قدرے کم مائل ہوں۔

سعودی بادشاہ کو اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی کا مسئلہ ہے اور امکان یہی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ وہ اپنے پیشرو کے برعکس سماجی اصلاحات کرنے کے زیادہ حامی نہیں ہیں۔

بشکریہ 
بشکریہ بی بی سی اردو     ڈاٹ کام

No comments:

Post a Comment

Facebook Followers