Saturday, 4 July 2015

سو برس سے جاری جنگ ( قسط اول)

سو برس سے جاری جنگ ( قسط اول)
وسعت اللہ خان  ہفتہ 27 جون 2015


’’ انگلستان کی عظمت و حرمت کے تحفظ کے نام پر ایک پوری جوان نسل کو بے وقوف جنرلوں کے احمق منصوبوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔جو بچ گئے وہ یہ جان کر صدمے اور مایوسی میں دھنستے چلے گئے کہ ان کے اصل دشمن جرمن نہیں بلکہ وہ بڈھے تھے جنھوں نے ان سے جھوٹ بول کے اس جنگ میں جھونکا۔چنانچہ ایک پوری نسل کا اپنی سماجی اقدار پر سے اعتبار اٹھ گیا اور انھوں نے ماضی کے ورثے سے لاتعلق ہو کے ایک نیا راستہ چن لیا۔( برطانوی مورخ سیموئیل ہینز) ‘‘۔

اگر میں کہوں کہ آج ہم جس متشدد سرطان میں مبتلا ہیں اس کی جڑیں پہلی عالمی جنگ میں ہیں تو آپ مان لیں گے ؟ انیس سو چودہ سے اٹھارہ تک کے چار برس نے اس کرہِ ارض کو ایسا تلپٹ کیا کہ سو برس بعد بھی اس کے اثرات بھگتے جا رہے ہیں۔کہا تو یہ گیا تھا کہ یہ جنگ تہذیب ِ انسانی کے تحفظ اور مستقبل کی سب جنگوں کے خاتمے کا سبب بنے گی لیکن یہ فریب تیزاب کا ایسا مرتبان نکلا جس کے ٹوٹنے سے تباہی در تباہی بہتی چلی گئی۔سو برس پہلے شروع ہونے والی یہ جنگ جانے کب تک جاری رہے۔

پہلی جنگِ عظیم سات ہزار سالہ معلوم انسانی تہذیب کا پہلا وحشیانہ عالمی تصادم تھا۔اس میں ایک کروڑ عام شہری اور نوے لاکھ فوجی مارے گئے۔دو کروڑ سے زائد انسان زخمی اور معذور ہوئے۔یہ جنگ جسے یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی ہوسِ برتری نے شروع کیا سوائے براعظم امریکا ہر خطے میں لڑی اور لڑوائی گئی۔یہ جنگ یورپی سامراجیوں کی کمان میں افریقی و ایشیائی غلاموںنے لڑی اور آج بھی ان ھی غلاموں کی کمر پے بیٹھ کے لڑی جارہی ہے۔
جنگِ عظیم اول نے ہمیں پہلے آہنی فوجی ہیلمٹ ، پہلے ٹینک ، پہلے جنگی طیارے ، پہلی آبدوز ، پہلے طیارہ بردار بحری جہاز ، انسان کش زہریلی گیس کے پہلے جنگی استعمال ، پہلے گیس ماسک ، پہلی فوجی عورت ، پہلی جنگی خندق ، پہلے بلڈ بینک اور پہلی ایکسرے مشین سے روشناس کرایا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلی بار اس عظیم جنگ کے آخری سال ( انیس سو سترہ – اٹھارہ ) میں کود کر امریکا کے منہ کو دنیا پر حکمرانی کا خونی چسکا لگا۔

یہ جنگ کئی سلطنتیں کھا گئی اور ہلا گئی۔زار کی عظیم الشان پانچ سو سالہ بادشاہت، آسٹرو ہنگیرین ایمپائر، جرمن ایمپائر اور عالی مرتبت سلطنتِ عثمانیہ نقشے سے مٹ گئی۔ برطانیہ عظمیٰ کے آفتابِ عروج پر زوال کی جھریاں پڑنے لگیں کہ جس کی کرنوں سے نصف کرہِ ارض منور تھا۔فرانس کی نصف آبادی نہ صرف ہر طرح سے کھکھل ہو گئی بلکہ سطوتِ آقائیت کی رسی بھی جل گئی البتہ بل پوری طرح دوسری عالمی جنگ نے نکالا۔

پہلی عالمگیر جنگ عالمگیر جھوٹ پے لڑی گئی۔عربوں سے دل فریب وعدے کرکے ان کے ہاتھوں سلطنتِ عثمانیہ پر آخری کاری وار کروایا گیا۔اس کا اجر بس یہ ملا کہ عربوں کی گردن میں پڑا طوقِ عثمانی طوقِ فرانسیسی و برطانوی سے بدل گیا  اور پھر ان کی پیٹھ میں صیہونی خنجر گھونپ کے آپس میں چھیچا لیدر کروا دی گئی۔افریقی نوآبادیوں اور ہندوستان  کو یہ پٹی پڑھائی گئی کہ ہمارا ساتھ دو اور بدلے میں خود مختاری لو۔لیکن جنگ کے بعد ان افریقیوں اور ہندوستانیوں کی مشکیں پہلے سے زیادہ کس دی گئیں۔

اس جنگ میں اپنے ہی سپاہیوں سے جھوٹ بولا گیا۔ بتایا کچھ کروایا کچھ۔اور جب ان سپاہیوں نے اپنے ہی خون سے لکھا وچن نبھا دیا تو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا گیا۔

پہلی عالمی جنگ نہ ایک عام مغربی کے فائدے میں لڑی گئی، نہ ہی یہ کسی عام مشرقی کے کام کی تھی۔یہ جنگ کسی منصفانہ نظریے ، ٹھوس ملکیتی جواز یا اپنے دفاع کے لیے نہیں تھی بلکہ یورپ کے شاہوں نے تہذیب کے سینے پر سامراجی بندر بانٹ کی بساط بچھا کے کروڑوں انسانوں کو مہرہ بنا کے خونی جوا کھیلا اور پھر ہاتھ جھاڑ کے پرے ہوگئے۔

ایک تاجک کہاوت ہے کہ جہنم کا وزنی دروازہ کھولنے کے لیے ایک چھنگلی ہی بہت ہے۔

ہوا یوں کہ آسٹرو ہنگیرین سلطنت کے ولی عہد فرانز فرڈیننڈ کو کسی سرپھرے نے بوسنیا کے شہر سرائیوو میں قتل کردیا۔آسٹرو ہنگیرین بادشاہ نے سربیا پر اس قتل کا الزام لگا کے بدلہ لینے کا عہد کیا۔زارِ روس نے آسٹرو ہنگیرین سلطنت کو خبردار کیا کہ سربیا میرا اتحادی ہے۔اگر اس پر حملہ ہوا تو میں بھی کود پڑوں گا۔

جرمن بادشاہ ولیلہم نے آسٹرو ہنگیرین بادشاہ کو یقین دلایا کہ کسی بھی فوجی کاروائی کی صورت میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور جرمنی کے صنعتی و فوجی حریف برطانیہ اور فرانس نے روس کو یقین دلایا کہ اگر سربیا کو بچانے کے لیے تمہاری آسٹرو ہنگیرین اور جرمن سلطنت سے مڈ بھیڑ ہوئی تو ہم تمہاری حمایت میں اعلانِ جنگ کردیں گے۔ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ نے جرمن سلطنت کو یقین دلایا کہ جنگ کی صورت میں ہم روس ، برطانیہ اور فرانس کے مقابلے میں حاضر ہیں۔

چنانچہ اٹھائیس جولائی انیس سو چودہ کو آسٹرو ہنگیرین دستوں نے سربیا پر چڑھائی کردی۔سربیا کی حمایت میں روس کودا۔روس کی حمایت میں تین ہفتے بعد فرانس ، برطانیہ اور اٹلی کودے اور ان تینوں کی حمایت میں جاپان کود گیا۔ دوسری جانب آسٹرو ہنگیرین سلطنت کی مدد کے لیے پہلے جرمنی آیا پھر ترکی بھی آ گیا۔

بھیڑیوں کی اس لڑائی میں عرب نژاد عثمانی سپاہی عبداللہ اور چکوال کا ہندوستانی نژاد برطانوی سپاہی عنائیت خان اپنی زمین سے ہزاروں میل پرے یورپ کے اجنبی برفیلی میدانوں اور گرم افریقی بیابانوں میں اپنے اپنے آقاؤں کی نمک خواری میں ایک دوسرے پر چار برس بندوقیں تانے یہی سوچتے رہے کہ وہ کس کے لیے اور کیوں لڑوائے جا رہے ہیں۔

یہ جنگ کھلے میدان اور بند کمروں میں لڑی گئی۔باہر جرنیل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پیادے بھڑا رہے  تھے تو بند کمروں میں سامراجی سیاستداں بینکاروں کی مدد سے ممکنہ نوآبادیاتی مالِ غنیمت کی بندر بانٹ کے نقشے پر لکیریں کھینچ رہے تھے۔

اگلے چند کالموں میں کوشش ہوگی کہ ہم سب کا مستقبل بالعموم اور مشرقِ وسطی ، شمالی افریقہ اور ہندوستان کا مستقبل بالخصوص پہلی عالمی جنگ کے خونی قلم سے کس کس نے کیسے کیسے لکھا کہ آج سو برس بعد بھی لہو رس رہا ہے۔مقصد نہ کسی کو کو سنا نہ خود کو مظلوم ثابت کرنا ہے۔بلکہ اس حقیقت تک پہنچنا ہے جس نے ہمیں وہاں پہنچا دیا جہاں کوئی بھی جانا نہیں چاہ رہا تھا۔

نہ کوئی گلہ ہے مجھ کو نہ کوئی شکایت ہے
آج ہوں میں جو کچھ بھی یہ آپ کی عنایت ہے

No comments:

Post a Comment

Facebook Followers