قوم اور کتاب
15 جولائی 2015

جو قومیں علم اور
کتاب سے محبت کی کرتی ہیں وہ قومیں دوسری دنیا سے ممتاز ہو جاتی ہیں اُن کاقد
دوسروں سے اونچا ہو جاتا ہے اور پوری دنیا ان کی قدر کرتی ہے ۔ کتاب کی عزت کرنے والی قوموں کو کوئی ترقی کرنے سے نہیں روک سکتا اس کے برعکس
جس معاشرے اور قوم نے کتاب کوچھوڑ دیا ترقی اور عزت بھی اُن سے منہ موڑ لیتی ہے، اُن قوموں میں پھر دانشور، سائنسدان، سیاستدان اور سکالر ز پیدا
ہونا بند ہو جاتے ہیں اور اُن کی جگہ چور ، ڈاکو، لٹیرے، بدمعاش، بدعنوان،منافع
خور اور بد دیانت لوگ لے لیتے ہیں اور
پستی و محکومی ایسی قوموں کا مقدر بن جاتی
ہے۔
Harper
Lee ایک امریکی
ناول نگار ہیں کل اُن کا نیا ناول “Go Set a Watchman” فروخت کے لیے بک شاپس کی
زینت بنا ، لوگ اتنے دیوانے ہوئے ہوئے تھے کہ دکانوں پر ناول کی فروخت سے پہلے ہی لائنیں لگی ہوئی تھیں
اور رات دیر تک دکانداروں کو اپنی دکانیں کھلی رکھنا پڑی۔
اس ناول کی ابتدائی
طور پر 20 لاکھ کاپیاں پرنٹ ہوئیں اور دو
مختلف پبلشرز نے اِن کو پبلش کیا۔ یہ ناول ہیری پوٹر سیریز کی آخری کتاب کے بعد ایمیزون
پر اشاعت سے قبل سب سے زیادہ آرڈر کی جانے والی کتاب بن گئی ہے اور اسے دنیا کے 70
ممالک میں ایک ساتھ فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے اس مصنفہ کا ایک اور ناول جس نے ان کو عالمی
شہرت بخشی “To Kill A Mocking Bird” تھا جو آج سی
55 سال پہلے چھپا تھا ۔اس کو 40 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چُکا ہے۔ اسے 1961 میں معتبر
امریکی ادبی انعام پیولٹزر ملا اور اس کے اب تک چار کروڑ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے
ہیں۔ اس پر 1962 میں بننے والی فلم کو بھی تین آسکر ایوارڈ ملے تھے اور اس میں وکیل
ایٹیکس فنچ کا کردار ادا کرنے والے گریگری پیک کو بہترین اداکار کا اعزاز ملا تھا۔
8 مرتبہ اس فلم کو آسکر کے لیے نامزد بھی کیا گیا۔
اس کے برعکس جب ہم وطن عزیز کا حال دیکھتے ہیں تو مایوسی
ہوتی ہےیہاں تو اخبارات جن کی قیمت 10 روپے ہوتی ہے وہ نہیں بکتے۔ہاکر سارا دن چلا
چلا کر مر جاتے ہیں۔ کئی اخبارات ، رسائل اور میگزیں تو بند ہوچُکی ہیں اور کچھ
سسک رہی ہیں اور جو چل رہے ہیں اُن کی سرپرست بااثر لوگ ہیں۔
لکھاریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہیں اُن کو
سخت معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ جو مواد چھپتا ہے وہ بھی مستند نہیں ہوتا اس میں بھی
مرچ مصالحہ لگا ہوتا ہے تحقیقی کام مر رہا ہے اور
سٹوریاں اوپر آ رہی ہیں جن کا معاشرے پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
اگر کوئی لکھاری جرات
کر بیٹھے کسی ادبی تخلیق کی تو پہلی بات کوئی چھاپنے کو تیار نہیں اگر کوئی
تیار ہو جائے تو رئیلٹی بہت ہی کم۔ اگر کوئی صاحب استطاعت جوش میں آ کر کوئی کتاب
اپنی جیب سے چھپوا دے تو پھر ساری زندگی اس کتاب کو بیچنے میں کھپ جاتی ہے اور
دوسری دفعہ اس کی ہمت ہی نہیں رہتی۔
کبھی کبھی تو کتابوں اور لکھاریوں کو مذہب اور سیاست کا
نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔ جالب، فیض، منٹو اس کی مثالیں ہیں۔
لے دے کے کالم نگار رہے گئے تھے کہ جن سے کچھ کچھ علمی پیاس
بھجتی تھی لیکں آجکل وہ بھی سیاست کی
بیماری میں مبتلا ہو چُکے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی پارٹی کو سپورٹ کر رہا
ہے غیر جانبداری پتہ نہیں کہاں مر کھپ گئی
ہے۔
ٹی وی چینلوں نے
قوم کو حقیقت اور منطق
سے نکال کر سسپنس میں ڈال دیا ۔ قوم ہر وقت بریکنگ نیوز اور سنسی والی
خبروں کی منتظر رہتی ہے ، حال ہی میں ایگزیکٹ سکینڈل اور ماڈل ایان علی میڈیا میں
نمایاں رہے۔
کرائم سین اور کرائم رپورٹس پر مبنی شوز اور مارننگ شوز
نے ذہنی بیماری پھیلائی ہوئی اور
جو رہی سہی کسر تھی وہ "رمضان شوز" نے نکال دی رحمتوں کی جگہ گفٹس اور
موٹر سائیکلوں نے لے لی۔ جن بزرگوں نے
بچوں کو زندگی گزارنے کے گُر
سکھانا تھے وہ بغیر ہاتھ لگائے کیک کھانا
سکھا رہے ہیں۔
ٹی وی پر فلسفیوں، دانشوروں اور ادیبوں کی جگہ جوکر اور
میراثی بیٹھ گئے اور علما ء کی جگہ اداکار۔
فلموں کی جگہ ریپ سین والے پروگرامز نے لے لی۔ طلباء کو نمبر لینے کی ریس
میں لگا دیااور اُن میں فکر کی جگہ فکرِ معاش ڈال دیا۔ معاش کے ڈر نے اُن کے ذہن
کو مشین میں بدل دیا سوچ، فکر، تخلق ختم
صرف ڈر، مستقبل کا ڈر۔ اساتذہ جنہوں نے اِن ہیروں کو تراش کر دانشور،فلسفی،
انجینیئر، سائنسدان اور ادیب بنانا تھا انہوں نے اکیڈمیاں بنا لیں پرائیویٹ ادارے
کھول لیے۔ (آپ جا کر اُن کے پرائیویٹ
اداروں اور اکیڈمیوں کا سرکاری اداروں سکولوں سے
موازنہ کر سکتے ہیں)۔
گھر میں باپ نے بھی ٹارگٹ دیا ہوا ہے کہ یہ بنو وہ بنو، اتنا جی پی اے ہو وغیرہ
وغیرہ۔کوئی اخبار، ماہانہ رسالہ کوئی کتاب کچھ نہیں آتا گھر میں ، آتے ہیں تو
نوٹس اور گائیڈز کہ جن کو پڑھ کر ٹاپ کرنا
ہے( یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کو)۔
اسی صورتِ حال میں ترقی کی امید رکھنا ایسے ہی جیسے کسی
معجزے کا انتظار کرنا کے ساری دنیا کے پہاڑ سونا بن جائیں۔
کتابیں فُٹ پاتھوں پر پڑی ہیں لینے والا کوئی نہیں، پاکستان
میں کتابوں کا سب سے بڑا خریدار ردی والا
ہے۔ لوگوں کی عادت یہ ہے کہ سلیبس کی
کتابیں بھی گھر پر نہیں رکھتے سمیسٹر پاس
کتابیں اولڈ بُک شاپس پر۔
جس معاشرے میں کتاب کی یہ قدر ہو گی تو اُن کا وزیرِ خزانہ کشکول لے کرملکوں ملکوں
نہیں پھرے گا تو اور کیا کرے گا، وہاں پنکھا بجلی سے نہیں ہاتھ سے چلے گا ، بارش
سیلاب بن جائے گی، دھوپ گرمی،نوجوان دہشت گرد، بزنس میں ٹیکس چور، حکمران
لٹیرے،آفیسر کرپٹ، چور چودھری، چودھری چور، سکول شادی حال، شرفاء مظلوم، ظالم بادشاہ بن جائے گااور عوام صرف غلام۔
ماؤ
No comments:
Post a Comment