اظہار ِ رائے کی آزادی سے محبت کی
آزادی تک


"اظہار
رائے کی آزادی" نامی اس اصطلاح نے معاشرے کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ، جس کے
جو جی میں آتا ہے لکھ دیتا ہے کہہ
دیتا ہے چاہیے اُس کی "جہالت" ہی کیوں نہ
ہو، یہ کہہ کر اس کو پروٹیکشن ملتی ہے کے ہر
ایک کو بولنے کی آزادی ہے، میری گزارش ہے کہ بولنے اور بھونکنے میں فرق ہونا چاہیے۔
اس نام نہاد آزادی کے لیے کسی قسم کی کوئی اخلاقی یا قانونی پابندی نہیں ہاں البتہ
مذہبی پابندی ضرور ہے کہ کوئی بھی جب مذہبی بات کرے تو فوراً اس کو شدت پسند قرار دے
دیا جائے اور جتنا کوئی فحاشی اور مذہب کے خلاف زہر اگلے اس کو اتنے ہی اعلی مرتبے
پر فائز کر دو۔
اخلاق کا جنازہ نکالنے کی یہ ایک سیریز ہے جس کا پہلا حصہ
"مذہب سےآزادی"تھا دوسرا "اظہارِ
رائے" کی آزادی اور اب اس کا تیسرا حصہ یعنی "محبت کی آزادی" بھی لانچ
ہو گیا ہے جس کا سب سے بڑا ٹارگٹ نوجوان ہیں اور یہ ہے "ہم جنس پرستی"۔ اللہ
کرے کے میری "پیشین گوئی" غلط ثابت ہو لیکن اس کا اگلا ورژن "جانوروں
سے شادی" ہے۔
اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی بنیاد "پورنو گرافی"
کی صورت میں بہت پہلے رکھ دی گئی تھی تاکہ نوجوان نسل میں جنسی خواہشات کو ابھارا جا
سکے اب جب یہ عمل اپنے عروج پر ہے اور طلب بڑھ گئی تو "ہم جنس پرستی" کو
قانونی شکل دے دی گئی۔ اور اب اس کو پرموٹ کرنے میں پہلے حصے (مذہب سے آزادی) اور دوسرے حصے (اظہار رائے کی
آزادی) کو استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ جو بھی اس طرف میلان رکھتا ہے وہ اس پر کھل کر
بات کرے مطلب "شرم و حیا" اور "اخلاق" کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔
اب جو کام ڈھکے چھُپے ہوا کرتا تھا وہ کھلم کُھلا ہو گا۔ ۔ اس
سلسلے میں صاحب بہادر امریکہ کی سپریم
کورٹ نے ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت
دے دی ہے اور ہیلری کلنٹن سمیت بہت سے
روشن خیالوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اب امریکہ کو ئی خوشی منائے اور پاکستانی
اُن کی خوشی میں خوش نہ ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے،پاکستان کی مشہور سیاستدان خاتون
"شیریں مزاری" کی بیٹی "ایمان حیدر مزاری نے" کُھل کر "ہم
جنس پرست شادی" کی صرف حمایت کی ہے بلکہ اس کو پرموٹ کرنے میں
بھی پیش پیش ہیں۔ آگے آگے دیکھیں کون کون اس
کاروان میں ملتا ہے۔
۔
(ماوَ)
No comments:
Post a Comment